1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریٹائرڈ افراد کو مہاجرین کی مدد کرنا ہو گی

امتیاز احمد2 نومبر 2015

جرمنی آنے والے مہاجرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس سے عوامی خدمت کے اداروں کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یہ خلاء اب ریٹائرڈ افراد پورا کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1GyPo
Deutschland Deutschunterricht für Flüchtlinge Lehrerin Anke Wölbing
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Heinl

اس سے قطع نظر کہ سیاسی پناہ ملی ہے یا نہیں یا اس عمل میں کتنا عرصہ درکار ہوگا، مہاجرین بچوں کو فوری طور پر اسکولوں میں جانا ہوگا۔ مہاجرین بچوں کے لیے تعلیم لازمی قرار دیے جانے کی وجہ سے جرمن سکولوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ نئی کلاسیں شروع کرنے اور ان کی تیاری کا کام تقریباﹰ دو گنا ہو گیا ہے۔ تعلیمی یونین کے سربراہ اوڈو بیکمان کے مطابق صرف ایک صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں 90 ہزار مہاجرین بچے اسکولوں میں داخل کیے جانے کی توقع ہے۔ اوڈو بیکمان کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے میں پانچ ہزار اساتذہ کی ضرورت ہو گی۔ ان کے مطابق یہ صوبائی حکومت زیادہ سے زیادہ تین ہزار نئے اساتذہ بھرتی کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود دو ہزار اساتذہ کی کمی رہے گی۔ صرف اس ایک مثال ہے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کو کن مشکلات اور مسائل کی سامنا ہے۔

نقل مکانی اور پناہ گزینوں کے وفاقی ادارے کے مطابق اسکولوں کے علاوہ شہروں اور قصبوں میں انتظامی سطح پر، پولیس، صحت کے مراکز، عدالتوں اور ملازمتیں تلاش کرنے میں مدد فراہم کرنے والے اداروں وغیرہ میں کم از کم ستّر ہزار نئے ملازمین کی ضرورت ہے۔ تاہم ابھی تک تک یہ بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ ان سیٹوں کو کیسے پُر کیا جائے گا۔

عوامی خدمت کے اداروں کے حوالے سے جرمن سول سروس فیڈریشن ( ڈی بی بی) کے وفاقی چیئرمین فولکر اسٹیش کا کہنا ہے کہ یہ ’نظام گرنے کے قریب‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے سربراہ نے ایسے تمام ملازمین سے رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ نہ لینے کی اپیل کی ہے، جن کی مددت ملازمت مکمل ہو چکی ہے۔ دوسری جانب جرمنی کے سولہ صوبوں کی حکومتوں نے ایسے افراد کو دوبارہ بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے، جو ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ حکام کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی خدمات حاصل کرنا نئی بھرتیوں اور پھر ان کی تربیت کرنے سے نسبت آسان ہے۔ ان سرکاری ملازمین کا بنیادی کام پناہ گزینوں کی رجسٹریشن اور ان جرمنی کے مختلف شہروں میں بھیجے جانے کے عمل میں مدد فراہم کرنا ہوگا۔

دوسری جانب ریٹارئرڈ ملازمین کو بھرتی کرنے کا بظاہر آسان منصوبے میں بھی کئی مسائل ہیں۔ قانونی طور پر ریٹائرڈ ملازمین کو صرف ایک حد تک پیسہ کمانے کی اجازت ہے۔ یہ صرف اس فرق کے مطابق پیسہ کما سکتے ہیں، جو ان کی سابقہ تنخوا اور موجودہ پینشن کے درمیان بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو قانونی طور پر پورے ہفتے میں صرف چند گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہے۔

فولکر اسٹیش کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر ایسے قانونی تبدیلیاں متعارف کروانی چاہییں، جن کے تحت ریٹائرڈ ملازمین ایک ہفتے میں کم از کم بیس گھنٹے کام کر سکیں۔

دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصونہ ناکام بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آغاز میں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے، جو جرمن زبان سکھا سکھیں۔ لیکن اگر کسی دوسرے مضامین کے اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے تو متوقع نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔