1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمبابوے میں متنازعہ انتخابات کے نتائج کی تصدیق شروع

1 مئی 2008

زمبابوے میں الیکشن کمیشن نے انتیس مارچ کو منعقدہ متنازعہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے نتایج کی تصدیق کے لئے چاروں صدارتی امیدواروں کی موجودگی میں اپنی کاروائی کا آغازکر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DrqH
صدر رابرٹ موگابے ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیںتصویر: AP

اطلاعات کے مطابق حتمی تصدیق کے لئےتین دن لگیں گے۔تاہم ابھی تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل سکا ہے کہ ان نتائج کی تصدیق کے بعد نتائج کا حتمی اعلان کب کیا جائے گا۔

زمبابوے میں الیکشن کمیشن نے بالاخرکہہ دیا ہےکہ حزب اختلاف سیاسی جماعت موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج نے ان انتخابات میں حکمران جماعت زانو پی ایف پر سبقت حاصل کر رکھی ہے تاہم یہ سبقت حکومت سازی کے لئے مطلوب پچاس فیصد سے کم ہے۔ سرکاری اخبار کے مطابق حزب اختلاف راہنما مورگن چنگرائی نے انچاس اعشاریہ ایک فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ زمبابوے میں لاگو قوانین کے مطابق صدارتی انتخابات میں کامیابی کےلئے پچاس فیصد ووٹ درکار ہوتے ہیں ۔

دوبارہ انتخابات کرانے کی تیاری

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت اس طرح صدارتی امیدوار کے حتمی فیصلے کے لئے دوبارہ ووٹنگ کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس سے قبل حزب اختلاف راہنما ٹنڈائی بیٹی نے کہا تھا کہ انہوں نے صدارتی انتخابات میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرلی ہے اور صدر موگابے نتائج کو مسخ کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں ۔

Simbabwe Wahlen Opposition wird in Harare verhaftet
حزب اختلاف پر کریک ڈاون کا منظرتصویر: AP

تاہم الیکشن کمیشن کے اس نئے اعلان کےبعد کہ حزب اختلاف نے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کی ۔ زمبابوے پولیس نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ بئیٹی سے الیکشن قوانین کو توڑنے پر ضابطے کی کاروائی کرے گی ۔ پولیس کے مطابق بئیٹی کی غلط بیانی کی وجہ سے ملک میں امن و امان کو نقصان پہنچا ہے اور تشدد کی وارداتیں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔

لیکن مورگن چنگرائی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ وہ ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں اورانتخابات کے دوسرے مرحلے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مورگن چنگرائی اور ان کے ساتھی بیئٹی ملک سے باہر ہیں اور وطن واپسی کے بارے میں خاموش ہیں۔

Vor den Wahlen in Simbabwe - Morgan Tsvangirai
مورگن رچرڈ چنگرائیتصویر: picture-alliance/ dpa

دریں اثنا انسانی حقوق کی تنظیموں اور حزب اختلاف نے صدر رابرٹ میگابے پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جبر و استبداد کے زریعے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں دھاندلی کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف حزب اختلاف سیاسی جماعت کے کئی کارکنان کو نہ صرف گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی جا رہا ہے۔ مورگن چنگرائی نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک مہینے میں ان کے کم از کم بیس ساتھیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

زمبابوے کے سیاسی بحران پر قیاس آرائیاں

انتیس مارچ کو پارلیمانی، صدارتی اور بلدیاتی انتخابات میں موگابے کی واضح اکثریت حاصل نہ کرنے کے بعد، سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ چوراسی سالہ رابرٹ موگابے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جانے سے اجتناب کریں گے اور اپنا سیاسی کیریئر باعزت طریقے سے ختم کریں گے، تاہم اسٹبلشمنٹ کے منظور نظر موگابے نے فوج ، عدلیہ اور انتظامیہ کی حمایت کے بعد اقتدار کو خیر باد نہ کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم موجودہ صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی ہمدردی کے باوجود، اگر انتخابات کے دوسرے مرحلے کا انعقاد کر بھی دیا جائے تو بھی صدر موگابے کی کامیابی کچھ مشکل نظر آ رہی ہے۔