1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمبابوے میں پانی کی غیرقانوی فروخت عروج پر

عاطف بلوچ، روئٹرز
1 جنوری 2017

زمبابوے میں پانی کے بحران کے تناظر میں پانی کے غیرقانونی بیوپاری بے روزگار نوجوانوں سے کنوئیں کھدوا کر چھاگلوں میں یا ٹینکروں کی صورت میں پانی بیچتے ہیں اور پیسے بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2V6re
Zimbabwe Afrika Armut
تصویر: AP

زمبابوے میں پینے کے پانی کی انتہائی قلت ہے اور ایسے میں اس دھندے کے غیرقانونی بیوپاری پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ زمبابوے کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا تھا، تاہم افریقہ کے جنوبی حصوں میں جاری شدید خشک سالی سے زمبابوے میں یہ صورت حال مزید بگڑ چکی ہے۔

حکومت کی جانب سے عائد کردہ متعدد پابندیوں کی وجہ سے دارالحکومت ہرارے سمیت زمبابوے بھر میں پانی کے نل ہفتے میں کئی کئی روز تک خشک دکھائی دیتے ہیں۔

ملک کے دوسرے بڑے شہر بُولاوایو میں لوگ بیس بیس لٹر کے پانی کے ڈبے سروں پر اٹھائے دکھائی دیتے ہیں اور کئی جگہوں پر لوگ ریڑھیوں پر پانی کے کنستر کھینچتے پھرتے ہیں۔

حکام کی جانب سے گو کہ پانی کی فروخت پر پابندی عائد ہے، تاہم یہ پابندیاں اس کاروبار میں ملوث افراد خاطر میں نہیں لاتے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پانی بیچنے والے 50 امریکی سینٹ اور ایک ڈالر کے برابر رقم وصول کر کے بیس لٹر پانی فروخت کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ زمبابوے میں سن 2015 میں فی کس آمدنی ڈھائی امریکی ڈالر یومیہ کے برابر سے بھی کم تھی اور ایسے میں شہریوں کو اپنی کمائی کا بڑا حصہ پانی خریدنے پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔

Cholera in Simbabwe
زمبابوے میں پانی کی قلت ایک بحران میں تبدیل ہو چکی ہےتصویر: AP

پانی کے ایک بیوپاری منڈلا ڈُنگینی کا کہنا ہے، ’’زمبابوے کے شہری بے شمار پریشانیوں سے گزرے ہیں، جنہوں نے ہمیں تخلیقی طور پر بہتر بنا دیا ہے اور ہم مسائل کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لیتے ہیں۔‘‘

اس شہری کا مزید کہنا ہے، ’’ہم صورت حال سے فائدہ اٹھا کر پیسے کمانے کا گر سیکھ گئے ہیں۔ میں رات کے وقت یا دن کو چھپ چھپا کر پانی ترسیل کر کے پیسے کمانے کو چالاکی سمجھتا ہوں۔‘‘

ڈُنگینی کے مطابق وہ شہر کے مرکزی حصے اور صنعتی علاقوں، جہاں پانی کی ترسیل کم معطل ہوتی ہے، سے پانی حاصل کرتا ہے اور دیگر جگہوں پر لے جا کر بیچ دیتا ہے۔

زمبابوے کی اقتصادیات انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں اور حکومت گزشتہ ایک دہائی سے پانی کے انفراسٹرکچر کو درست رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ سن 2008ء میں زمبابوے میں ہیضے کی وبا پھیل گئی تھی، جس کی وجہ گندہ پانی تھا۔ اس وبا کے نتیجے میں وہاں کم از کم چار ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق حکومت ملک میں موجود پانی کی ترسیل کے انتہائی پرانے ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور نکاسی آب کے نظام کو درست رکھنے میں ناکام رہی ہے اور اسی وجہ سے ملک  کے بہت سے شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔