1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمبابوے کی سیاست میں لندن اور واشنگٹن کا کردار

Geelani, Gowhar9 مئی 2008

ایک ایسا ملک جہاں افراط زر کی شرح ایک لاکھ پینسٹھ ہزار فی صد سے بھی زیادہ ہے‘ بے روزگاری اسّی فی صد‘ بنیادی اشیاء ضرورت کی زبردست قلت اور جہاں اس وقت سیاسی بحران مزید گہرا ہوتا دکھائی دے ۔ جی ہاں زمبابوے۔

https://p.dw.com/p/DxZv
زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابےتصویر: AP

اٹھائیس سال قبل جنوبی Rhodesia کو برطانیہ سے مکمل طور پر آزادی حاصل ہوئی۔اور اسی آزادی کے ساتھ ملا ایک نیا نام‘ نیا قومی پرچم‘ اور رابرٹ موگابے کی سربراہی میں ایک نئی حکومت۔موگابے زمبابوے کے وزیر اعظم بنے اور Canaan Banana اس نئے ملک کے پہلے صدر۔

سن 1987میں آئینی ترمیم کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے کو ختم کردیا گیا اور ایک ایکزیکٹیو صدر کے عہدے کے لئے راہ ہموار کی گئی۔آئین میں اس اہم تبدیلی کے بعد رابرٹ موگابے ملک کے صدر بن گئے۔سنہ انیس سو اٹھاسی کے بعد سے موگابے صدارتی عہدے پر فائز ہیں۔

Gordon Brown bei George W. Bush
امریکی صدر جارج بُش اور برطانوی وزیر اعظم گارڈن براٴون ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔تصویر: AP

آزادی کے بعد پہلی دہائی میں علاقائی سطح پر اس ملک کو مثالی تصور کیا جاتا رہا۔لیکن آج زمبابوے کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے سنگین سیاسی بحران کا بھی سامنا ہے۔آجکل بین الاقوامی برادری‘ بالخصوص لندن اور واشنگٹن کی حکومتیں زمبابوے کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں جس پر صدر رابرٹ موگابے کا الزام ہے کہ بیرونی طاقتیں زمبابوے کو جنگ کے تھیٹر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔