1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’زہرہ آرکسٹرا‘ کی بانی افغان پشتون فنکارہ نگین خپلواک

امجد علی18 اپریل 2016

مشرقی افغان صوبے کنڑ کی اُنیس سالہ نگین خپلواک نے دارالحکومت کابل میں نوجوان خواتین پر مشتمل چالیس رکنی ’زہرہ آرکسٹرا‘ کی قیادت سنبھال رکھی ہے۔ یہ فنکارائیں مغربی اور افغان دونوں طرح کے آلاتِ موسیقی بجانے کی ماہر ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IXeh
Afghanistan 18-jährige Negin Khapalwak
نگین خپلواک پیانو پر مشق کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Jawad

نگین خپلواک کو بھی دیگر افغان نوعمر لڑکے لڑکیوں کی طرح بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤ تھا لیکن کم ہی لوگوں نے خاندان کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود اپنے موسیقی کے شوق کے لیے اتنی سخت جنگ لڑی ہو گی، جتنی کہ نگین خپلواک نے لڑی ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں آلاتِ موسیقی بجانا سرے سے ہی منع تھا اور آج بھی وہاں کے بہت سے قدامت پسند مسلمان موسیقی کی بہت سی اَقسام اور صورتوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔

نگین نے موسیقی نے ابتدا میں چوری چھُپے موسیقی کے ابتدائی سبق لیے، بالآخر اُس نے اپنا یہ شوق اپنے والد پر ظاہر کر دیا۔ والد نے تو حوصلہ افزائی کی لیکن اُس کے باقی قدامت پسند پشتون خاندان کا ردعمل انتہائی حوصلہ شکن تھا: ’’میرے والد سے قطعِ نظر خاندان کا ہر فرد میرے خلاف ہو گیا، وہ کہتے تھے کہ ایک پشتون لڑکی بھلا کیسے موسیقی بجا سکتی ہے اور وہ بھی ہمارے قبیلے میں، جہاں مردوں کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟‘‘

آج کل نگین خپلواک کابل کے ایک یتیم خانے میں مقیم ہے اور ایک تقریباً چالیس رکنی آرکسٹرا کی قیادت کر رہی ہے، جسے ’زہرہ آرکسٹرا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آرکسٹرا افغانستان نیشنل انسٹیٹیوٹ فار میوزک میں مغربی اور افغان ہر دو طرح کی موسیقی بجانے میں مہارت رکھتا ہے۔

Afghanisches Nationalinstitut für Musik ANIM
مختلف ساز بجانے والی نوجوان افغان فنکاراؤں کے ساتھ افغان ماہرِ موسیقی احمد ناصر سرمست کی ایک تصویرتصویر: ANIM

نگین خپلواک کے مطابق حال ہی میں وہ اپنے گھر والوں سے ملنے گئی تو اُس کے بھائیوں اور چچاؤں نے اُسے دھمکی دی کہ اگر اُس نے ٹیلی وژن پر پروگرام پیش کیا تو وہ اُسے ماریں پیٹیں گے چنانچہ اگلے ہی روز وہ واپس کابل آ گئی: ’’افغانستان سے باہر کی خواتین کے مقابلے میں ہمیں ایسا لگتا ہے، جیسے ہم کسی پنجرے میں ہوں۔‘‘

افغان ماہرِ موسیقی احمد ناصر سرمست طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد 2010ء میں نیشنل انسٹیٹیوٹ فار میوزک کے قیام میں مدد دینے کے لیے آسٹریلیا سے واپس افغانستان لوٹے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آرکسٹرا کی تشکیل بجائے خود ایک بڑی کامیابی ہے: ’’اس آرکسٹرا میں شامل لڑکیاں اور اُن کی نوجوان لیڈر بہت بہادر ہیں۔‘‘

اس آرکسٹرا میں شامل کچھ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اُن کے رشتہ داروں کو اُن پر فخر ہے لیکن یہ کہ دیگر حلقوں کی طرف سے اُنہیں شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ آرکسٹرا میں ٹرمپٹ بجانے والی فنکارہ مینا نے، جس کی والدہ مشرقی افغان شہر جلال آباد میں ایک پولیس اہلکار ہے، بتایا: ’’میں جب اپنے آلاتِ موسیقی اٹھائے گزرتی ہوں تو لوگ پیچھے سے میرے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں۔‘‘

Schülerin am Afghanischen Nationalinstitut für Musik ANIM
افغانستان نیشنل انسٹیٹیوٹ فار میوزک میں لڑکیوں کو مغربی اور افغان ہر دو طرح کے آلاتِ موسیقی بجانا سکھایا جاتا ہےتصویر: ANIM

افغانستان میں موسیقی کے شعبے سے وابستہ شہریوں کے لیے حالات کس قدر خطرناک ہیں، اس کا اندازہ 2014ء کے اُس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے، جب سرمست ایک خود کُش حملے میں بال بال بچا تھا۔ تب کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

سرمست کہتے ہیں کہ اُن کے حوصلے پھر بھی پست نہیں ہوئے اور لڑکیوں کا آرکسٹرا انتہا پسندوں کی کارروائیوں کا موزوں جواب ہے۔ یہ انسٹیٹیوٹ نگین کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور اُسے اپنی تعلیم مکمل کرنے میں بھی مدد دے رہا ہے۔

’زہرہ آرکسٹرا‘ کی میوزک کنڈکٹر نگین خپلواک کا کہنا ہے: ’’میں بھی اب پہلے والی نگین نہیں ہوں۔ مجھے اس آرکسٹرا کی قیادت کرتے چھ مہینے ہو گئے ہیں اور یہ کافی سخت ذمے داری ہے۔‘‘ نگین کہتی ہے کہ وہ اپنے شوق کے لیے اپنے گھر والوں کو بھی چھوڑ سکتی ہے: ’’میں شکست نہیں تسلیم کروں گی۔ میں موسیقی کے ساتھ اپنا رشتہ اُستوار رکھوں گی۔ میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتی لیکن جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہے نگین خپلواک، تو مجھے بہت توانائی ملتی ہے۔‘‘