1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زیادہ اولاد کی خواہش اور ماؤں کی ہلاکتیں

1 جنوری 2021

سدرہ کے ساتھ میری دوستی دو عشروں پر محیط ہے۔ ایف ایس سی کے بعد جدا ہو جانے کے باوجود ہمارا تعلق پندرہ برسوں بعد بھی ویسا ہی ہے، جیسا مڈل سکول میں تھا۔ وقت گزرتا گیا، سدرہ ڈاکٹر بن گئی اور میں غم دنیا میں الجھ کر رہ گئی۔

https://p.dw.com/p/3nQm8
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

لاہور اور مردان کے فاصلے سمیٹنے کے لیے آج بھی کال یا ویڈیو کال پر بات ہو اور سدرہ کی آواز ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو تو میرا سوال یہی ہوتا ہے کہ اس بار تمہاری مریضہ کی عمرکیا تھی؟ عموما دوران زچگی انتقال کر جانے والی کسی خاتون کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال کے درمیان نکلتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں اور روزانہ کی اموات ان پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ ہاں شاید ایسا ہو پر ہر حساس انسان کی طرح اپنے سماج کے المیوں پر وہ بھی عام انسانوں کی طرح  ہی جلتے،کڑھتے اور پریشان ہوتے ہیں۔

ابھی کچھ دیر پہلے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ جو عورت اس بار فوت ہوئی ہے، اس کے پہلے پانچ بچے تھے اور وہ بارہا ان کے گھر والوں کو بتا چکی تھی کہ جگر کمزور ہونے اور خون نہ بننے کی وجہ سے زچہ کی جان کو خطرہ ہے۔ دوسری بات وہ متوسط طبقے کا خاندان تھا اور ایک کفیل گھر کے اتنے افراد کا خرچہ اٹھانے لائق بھی نہیں تھا۔ اس لیے وہ زچہ اور اپنے وسائل کو دیکھ کر کوئی فیصلہ لیتے، پر جواب میں ہمیشہ کی طرح  وہی تاویلیں کہ آنے والا اپنا رزق ساتھ لاتا ہے یا منفی ردعمل کے آپ لیڈی ڈاکٹر ہیں، اپنے کام سے کام رکھیں اور ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی مت کریں۔

 اب اس قسم کے ردعمل کے بعد کوئی کسی کو  خاک سمجھائے؟ ماں ایک خاندان کی اکائی کا درجہ رکھتی ہے، اس کی صحت اور زندگی اس کے تمام بچوں کے لیے انتہائی قیمتی ہوتی ہے۔ خاندان بڑھانے کے چکر میں جو بچے اپنی مائیں کھو دیتے ہیں وہ پھر کیسی زندگی گزارتے ہیں، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہماری اس موضوع پر اکثر بات چیت ہوتی ہے پر اس مکالمے کا کوئی حل صرف دو انسان نہیں نکال سکتے۔

یہ بھی پڑھیے: 

رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟

سگے رشتہ دار اور بچوں سے جنسی زیادتی کے اذیت ناک واقعات

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی غربت کی ایک بنیادی بڑی وجہ ہے۔ غربت کا خاتمہ آبادی کو قابو کیے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ جس قدر آبادی بڑھے گی، غربت بھی اسی تناسب سے بڑھتی جائے گی اور اسی  کی وجہ سے جرائم کی شرح بھی۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک تیزی سے گھٹتے قدرتی وسائل اور بڑھتی آبادی کے تناسب کو لے کر پریشان ہیں۔

اگر ہم اجتماعی اثر کی بجائے انفرادی خاندانی اکائیوں پر بھی بڑھتی آبادی کے عوامل دیکھیں تو کوئی بہت اچھی صورت حال سامنے نہیں آتی۔ ہمارے ہاں اولاد نرینہ کی خواہش کے لیے بیٹیوں کی لمبی قطار لگا دی جاتی ہے جبکہ فی زمانہ نوکریوں، کاروبار یا تعلیمی میدان میں بیٹیاں کسی بھی صورت بیٹوں سے کم نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بہن بھائیوں کی جوڑیاں مکمل کرنے کے چکر میں بھی اوپر تلے بچے پیدا کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک طبقے میں اولاد بطور مزدور پیدا کی جاتی ہے کہ کمانے والے ہاتھ  زیادہ ہو جائیں گے۔ یہ سوچے بغیر کہ کمائی کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی بہت سی ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق لباس، خوراک، تعلیم اور تربیت ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

بچے جتنے زیادہ ہوں گے، معیار زندگی اس قدر ہی متاثر ہوگا۔ ان کے لباس، خوراک اور تعلیم و تربیت کے حقوق ادا نہ ہو پائیں گے اور جہاں اولاد ہی ایسے نظرانداز ہوتی پھرے، وہاں پانچ بچوں کے بعد کیا باپ کے وسائل اس لائق ہوں گے کہ وہ چھٹی مرتبہ عارضہ جگر میں مبتلا بیوی کے علاج کے لیے کوئی سبیل کر سکے؟

کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ سائنسی اور سماجی نقطہ نظر کو ایک طرف رکھ کر مذہبی تاویلیں دینے والوں سے بس یہ سوال کروں کہ جو مذہب دو شادیوں کی صورت میں بھی دونوں بیگمات میں عدل کی تلقین کرتا ہو، وہ تمام بچوں میں عدل اور ان کے حقوق کی تلقین نہیں کرتا؟

اسی طرح جب ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے تو وہ ایک انسان، وہ ایک ماں یا عورت بھی تو ہو سکتی ہے، جس کی صحت کے بارے میں آپ کی لیڈی ڈاکٹر واضح طور پر آگاہ کر چکی ہو کہ یہ اب مزید ایک بچہ پیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ کیا اس حوالے سے آواز بلند کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟  زیادہ اولاد کی خواہش اپنی جگہ لیکن خدارا ماؤں کی صحت اور ان کی زندگی کے بارے میں بھی سوچیے!