1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق پاکستانی وزیر خارجہ کی کتاب، نئی دہلی میں اجراء

25 نومبر 2009

پاکستان کےسابق وزیرخارجہ سرتاج عزیز نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر 18 اپریل 1999 کو بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نہیں گرتی اور کارگل کا واقعہ پیش نہ آتا تو تنازع کشمیر کے حل کی جہت میں پیش رفت ہوگئی ہوتی۔

https://p.dw.com/p/KgJT
گزشتہ برس ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بدستور کشیدگی موجود ہےتصویر: Ap

آکسفورڈ پریس کی طرف سے شائع ہونے والی اپنی کتاب 'Between Dreams and Realities; Some Milestones in Pakistan History' کے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اجراء کے موقع پرپاکستان مسلم لیگ (ن) کے سنئیر لیڈر اور سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیر نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کی اور پاکستان اور جنوبی ایشیا میں رونما ہونے والے کئی اہم واقعات پر سے پردہ اٹھایا۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ان کے بقول فروری 1999میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہء اسلام آباد کے ایک ماہ بعد ان کی بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ سے کولمبو میں تفصیلی ملاقات ہوئی تھی، جس میں دونوں اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ پوری ریاست میں رائے شماری کرانے کے بجائے ضلع وار رائے شماری کی جائے گی۔کیونکہ ریاست میں دریائے چناب کے مغرب میں مسلم اکثریتی اضلاع ہیں اور مشرق میں ہندو اکثریتی اضلاع۔

امریکہ میں موجود کشمیر اسٹڈی گروپ نے اس تجویزکا خاکہ پیش کیا تھا۔ مسلم علاقے پاکستان میں ضم ہوں گے اور جموں و لدّاخ بھارت میں نیز وادی کشمیر کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی۔

’’ویسے اس کے لئے زمین ہموار کرنے کاسلسلہ 1998 میں شروع ہو گیا تھا لیکن واجپائی حکومت کے گر جانے اور بعد ازاں کارگل جنگ نے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔‘‘

پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرّف کو سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیرخارجہ سرتاج عزیز نے بتایا کہ ان سے واجپائی نے کہا تھا کہ کارگل جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اعتماد کو پہنچا ہے اور اسے بحال کرنے میں خاصہ وقت لگے گا۔ اس واقعہ نے لاہور اعلامیہ سے شروع ہونے والے امن عمل کو سبوتاژ کردیا۔

جب سرتاج عزیز سے پوچھا گیا کہ وہ کارگل جنگ کے عروج کے وقت اچانک نئی دہلی کیوں آئے تھے؟ جبکہ اسوقت بڑے نازک حالات تھے، بھارت نے ان کی آمد سے ایک دن قبل جنرل مشرّف اور جنرل عزیز کے مابین خفیہ گفتگو کا ٹیپ نشر کردیا تھا۔

’’جون 1999 کو ان کی آمد کا مقصد کشیدگی کم کرنا تھا کیونکہ مشرف کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی وجہ سے معاملہ سنگین نوعیت اختیار کر سکتا تھا۔ جیسا کہ 1965 کی جنگ میں ہوا تھا۔ اگر اس وقت سیکٹر کو نہ پھیلایا جاتا تو یہ جنگ نہ ہوتی۔ چنانچہ اس موقعہ پر ہماری کوششں تھی کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکلے اور اس جنگ کا دائرہ نہ پھیلے۔‘‘

سرتاج عزیزکے دورے کے دو ہفتے بعد پس پردہ سفارتکاری کاسلسلہ شروع ہواتھا۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے طرز عمل سے پاکستان کو شرمندگی کا سامنا اور کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ تاریخ کا عجیب واقعہ اور ستم ظریفی ہے کہ جس نے یہ کام انجام دیا ہو، ملک پر نو سال تک حکمرانی کرتا رہا اور جس نے اسے روکا اسے ملک بدر ہونا پڑا۔

اپنی کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے عزیز نے کہا کہ اس میں 1984 کے بعد رونما تمام بڑے واقعات کا تذکرہ ہے۔ صدر غلام اسحاق خاں کے ذریعہ نواز شریف حکومت کا تختہ پلٹنا، دونوں مسلم لیگ دھڑوں کا علٰیحدہ ہونا،کارگل جنگ، لاہور اعلامیہ وغیرہ سب اس کتاب میں شامل ہیں۔

’’یہ کتاب میرے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا نتیجہ ہے اس لئے اس میں کئی ایسے پہلو سامنے آئے ہیں جو اب تک منظر عام پر نہیں آئے تھے۔‘‘

پاکستان کے موجودہ نازک حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی اصل وجہ اس کی زبردست سیاسی اورجغرافیائی پوزیشن ہے۔ عثمانی خلافت کا زوال، برٹش امپائر کا خاتمہ اور سویت یونین کا زوال وغیرہ کے اثرا ت سے پاکستان محفوظ نہیں رہا۔ افغانستان پر امریکی حملے کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے انتہا پسندی کو مہمیز کیا۔

ان کا قوی احسا س ہے کہ پاکستان میں حالات جمہوریت کے استحکام کے بغیر بہتر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بار بار جمہوری حکومتوں کا تختہ پلٹنے سے جمہو ریت مستحکم نہیں ہوسکی، فوجی حکومتوں کے دور میں صرف عاملہ مضبوط ہوتی رہی جبکہ جمہوریت کے بقا کے لئے عدلیہ، پارلیمان اور دیگر اداروں کو مضبوط ہونا ضروری ہے۔

اپنی کتاب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی 25 سالہ واقعات کا مرقع ہے۔ ان کے بقول ’’مبصرین کتاب کو معروضی، جذباتیت سے پاک اورتعصب سے مبرّا قرار دیتے ہیں۔ یہ کتاب نئی نسل کی رہنمائی کے کام آسکتی ہے۔ یہ تمام بڑے واقعات کا معروضی تجزیہ پیش کرتی ہے۔کئی رازوں کو منظر عام پر لاتی ہے۔‘‘

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر