1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سال 2009ء اور تحفظ ماحولیات کی کوششیں

31 دسمبر 2009

سن دو ہزار نو میں تحفظ ماحولیات کے لئے کی جانے والی کوششیں کوئی خاص رنگ نہیں لائیں ،عالمی درجہ حرارت سے متاثرہ ممالک اور خطوں کی نظریں کوپن ہیگن کانفرنس پر مرکوز رہیں لیکن یہ کانفرنس بھی امیدوں پوری نہ اتری۔

https://p.dw.com/p/LHtV
گلوبل وارمنگ کی استعارتی تصویر کشیتصویر: AP

سال دو ہزارنوکےدوران اقتصادی بحران کے باوجود تحفظ ماحولیات جیسا حساس موضوع سیاسی اور عوامی سطح پر گفتگو کا مرکز بنا رہا۔ تمام سال کوپن ہیگن کانفرنس کی تیاریاں ہوتی رہیں۔ صرف ماہ جون سے دسمبرتک اقوام متحدہ کے اعلیٰ سفارت کار، اس کانفرنس کی تیاری کی سلسلےمیں پانچ مرتبہ باضابطہ طورپرملے۔ مقصد یہ تھا کہ رواں صدی کے دوران عالمی درجہء حرارت میں اضافے کو دوڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لئے کوئی حکمت عمی تیار کی جائے اور سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے ایسے معیارات اور اہداف مقرر کئے جائیں، جن پر عمل کرنا قانونی طور پر لازمی ہو۔ لیکن اس بارہ روزہ کانفرنس کے دوران ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔

UN-Klimakonferenz in Kopenhagen
کوپن ہیگن کانفرنس کے دوران وسیع پیمانے پر مظاہرے بھی دکھنے میں آئےتصویر: AP

کوپن ہیگن کانفرنس میں کیا ہوا؟

اٹھارہ دسمبر سن دو ہزار نو اس بارہ روزہ کانفرنس کا آخری دن تھا، یہ مذاکرات اپنے مقررہ وقت سے بیس گھنٹے تاخیر سے ختم ہوئے۔ لیکن اس کانفرنس کے دوران تحفظ ماحولیات کے لئے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ اگرچہ اس کانفرنس کے اختتام پر شرکاء ایک سمجھوتے پر متفق ہوئے لیکن سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئےلازمی اہداف مقرر نہ کئے جا سکے۔ ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے ترقی پذیرممالک کے لئے ایک سو بلین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا گیا، جو سالانہ بنیادوں پردوہزار بیس تک استمعال میں لایا جا سکے گا۔ اس فنڈ کا مقصد یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے بری طرح متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کر سکیں اور ایسے منصوبے بنا سکیں، جو ماحول دوست ہوں۔

Merkel Dänemark Klima Gipfel Kopenhagen
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: AP

غریب ممالک کے لئے مالی فنڈ

لیکن اس مالی فنڈ پر بحر الکاہل میں واقع ایک جزیرہ ملک Tuvalu کے سفارت کار Ian Fry نے تنقید کی اور اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا:’’ ہمارے لئے جو یہ رقم مختص کی گئی ہے، یہ کچھ ایسے ہی ہے کہ ہمیں کانسی کے تیس سکے دئے جا رہے ہیں، جس کے عوض ہمیں اپنے لوگوں اور اپنے مستقبل کو دھوکا دینے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارا مستقبل بکاؤ نہیں ہے۔ Tuvalu اس دستاویز کو نامنظور کرتا ہے۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ عالمی درجہء حرارت میں اضافے کے نتیجے میں سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح سے زیرِ آب آنے اور یوں صفحہ ہستی سے مٹ جانے والے ممالک میں سے Tuvalu پہلا ملک ہو گا۔ Tuvalu کے اس احتجاج میں کئی دیگر ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہو گئے، بالخصوص لاطینی امریکہ کے ممالک، جن میں وینزویلا، بولیویا، نکراگوا اور کیوبا آگے آگے رہے۔ ان ممالک کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی درجہء حرارت میں اضافے کی موجب سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے مقرر کئے گئے اہداف کا حصول قانونی طور پر لازمی ہونا چاہئے۔

Kopenhagen Klimagipfel Ban Ki Moon
اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مونتصویر: AP

کوپن ہیگن کانفرنس : اہداف کی تکمیل لازمی نہیں

لمبی بحث کے بعد آخر کار اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اعلان کیا کہ کانفرنس میں شریک تمام مندوبین ایک سمجھوتے پر متفق ہو گئے ہیں۔ تاہم بان کی مون نے اس سمجھوتے کو صرف ایک آغاز سے ہی تعبیر کیا:’’ ہم اس دستاویز کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لئے میں آئندہ کچھ مہینوں کے دوران عالمی رہنماؤں سے مذاکرات کروں گا۔‘‘

امریکی صدر کی شرکت اور شرکاء کے محسوسات

اس کانفرنس کے آخری دن امریکی صدر باراک اوباما کی شرکت بھی مندوبین کے لئے ملے جلے جذبات کی حامل رہی۔ باراک اوباما نے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے کا کوئی عندیہ نہ دیا تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اس کانفرنس میں جو سمجھوتہ ہوا ہے، اُس کے تحت عالمی درجہء حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس کانفرنس کے دوران کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی:’’میرے خیال میں اس حوالے سے ناکامی کا احساس ہو سکتا ہے یا یوں لگ سکتا ہے کہ اس فیصلے میں خلوص کی کمی ہےکیونکہ ہم نے ایک قدم آگے اٹھانے کے بجائے دو قدم پیچھے لے لئے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے میرے خیالات بہت واضح ہیں کہ آئندہ دنوں میں اس معاملے پر ہمیں سائنس کے اصولوں کو ماننا پڑے گا اور سائنس یہ اشارہ دیتی ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے ہمیں مستقبل میں جارحانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔‘‘

کوپن ہیگن کانفرنس اور جرمنی کا موقف

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تسلیم کیا کہ کوپن ہیگن کانفرنس کے دوران مذاکرات خاصی پیچیدگی کے حامل تھے۔ انہوں نے کہا:’’مذاکرات کافی مشکل رہے۔ اگرچہ میرے لئے اس کانفرنس کا نتیجہ تسلیم کرنا کافی مشکل تھا لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اگر یہ عمل یہیں روک دیا جائے گا تو ہم کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ اس لئے ہم بھی اس معاہدے میں شامل ہیں تاکہ تحفظ ماحولیات کو ممکن بنانے کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘

کوپن ہیگن کانفرنس پر تنقید

اس کانفرنس میں شامل تمام سماجی کارکنان نے نتائج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ گرین پیس سے تعلق رکھنے والے جنوبی افریقہ کے Kumi Naidoo نے کہا: ’’ یہ غریبوں کے ساتھ دھوکا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے تباہ حال ممالک کے ساتھ دھوکا ہے، اور اس کرہ ارض پر رہنے والے تمام بچوں اور ان کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ دھوکا ہے۔‘‘

US-Präsident Obama UN Klimagipfel Kopenhagen Pressekonferenz
امریکی صدر باراک اوباماتصویر: AP

مستقبل کی منصوبہ بندی

سال دو ہزار دس کے اواخر میں اب میکسیکو میں عالمی رہنماء عالمی درجہ حرارت میں کمی کو ممکن بنانے کے لئے دوبارہ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ دریں اثناء موسمیاتی سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہےاور عالمی درجہء حرارت میں کمی کے لئے فوری طور پر اقدامات نہ کئے گئے تو اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام جانداروں کے لئے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

رپورٹ : عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں