1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سب سے بڑا غیر جوہری بم ننگرہار پر ہی کیوں گرایا گیا؟

14 اپریل 2017

افغانستان میں حکام اور متاثرین سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں کسی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آخر امریکا نے شدت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف سب سے بڑا غیر جوہری بم پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع ننگرہار پر ہی کیوں گرایا۔

https://p.dw.com/p/2bFHs
USA Bombe GBU-43/B in Florida
تصویر: Reuters/U.S. Air Force

اس سوال کے جواب میں ننگرہار صوبے کے گورنر عطاء اللہ خوگیانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’ہم نے ضلع آچین میں داعش کے ان بڑے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف متعدد آپریشن کیے، جن کے جواب میں شدید مزاحمت ہونے کی صورت میں اس حملے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس پر عملدرآمد بھی کیا گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ وہاں آئی ایس کے کئی اہم لیڈر بھی مورچہ بند تھے۔‘‘

عطاء اللہ خوگیانی نے مزید بتایا:’’یہ غاریں اس لیے بھی خطرناک تھیں کہ آئی ایس کے جنگجو مقامی باشندوں کو اغوا کر کے وہاں رکھا کرتے تھے۔ اس بڑے حملے سے پہلے ڈرون حملوں کے ذریعے بھی ان بنکرز کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جو ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بم کے ذریعے بنکرز کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔‘‘

Karte Taliban und IS in Afghanistan Englisch
سرخ اور گہرے سرخ رنگ والے حصے طالبان کے دائرہٴ اثر میں یا اُن کے کنٹرول میں ہیں، سیاہ رنگ والے حصے داعش کے کنٹرول میں ہیں

اس سوال کے جواب میں کہ آیا اس حملے میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں، خوگیانی کا کہنا تھا:’’داعش کے یہ ٹھکانے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ عام شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے کیونکہ آئی ایس کی وجہ سے پہلے ہی مقامی باشندے اس علاقے سے فرار ہو گئے تھے۔ آئی ایس کے اہم رہنما مارے گئے ہیں لیکن مرنے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘

آچین میں اس حملے کے ایک عینی شاہد ملک یونس نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’کل شام سات بجے (مقامی وقت) ایک چیز پھینکی گئی۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک یہ جگہ شعلوں میں لپٹی رہی۔ جہاں بم پھینکا گیا، وہاں عام شہری نہیں رہتے۔ وہ پہاڑی علاقہ ہے اور غاریں سوویت دور (اَسّی کے عشرے) کی ہیں۔ نیچے وادی میں لیکن گاؤں آباد ہیں۔ آئی ایس کی وجہ سے ہم وہاں نہیں جا سکتے۔ داعش کے جنگجوؤں کی تعداد کے حوالے سے بھی مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن سننے میں آیا ہے کہ وہاں چالیس سے لے کر نوّے تک داعش کے لوگ رہ رہے تھے۔ وہ جگہ اب مکمل طور پر نیست و نابود ہو چکی ہے۔‘‘

Bildergalerie IS in Afghanistan
یکم اگست 2015ء: افغان صوبے کنڑ میں داعش کا ضلعی لیڈر گُل دالی (دائیں) اپنے ساتھیوں کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

عینی شاہد ملک یونس سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا آچین کے علاقے کے لوگ ’اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے حامی ہیں تو اُنہوں نے کہا:’’داعش کے لوگ کرائے کے جنگجوؤں کو بہت پیسہ ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اسلام کا بھی بہت نام لیتے ہیں۔ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت بھی لادین ہے اور امارات (طالبان قیادت) بھی کافر ہے، صرف آئی ایس والے ہی مسلمان ہیں۔ باقی سب مُرتد ہیں۔ پیسہ اور اس طرح کا پراپیگنڈا نئے لوگوں کو بھرتی کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔‘‘