1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سب سے مہنگے اور سب سے سستے شہر کون سے ہيں؟

19 مارچ 2019

دنيا کے مہنگے ترين شہروں ميں فرانسيسی دارالحکومت پيرس، سنگاپور اور ہانگ کانگ پہلی پوزيشن پر ہيں جب کہ سياسی بحران کے شکار ملک وينزويلا کا دارالحکومت کراکس اخراجات کے اعتبار سے سب سے سستا شہر قرار پايا ہے۔

https://p.dw.com/p/3FISP
Bildergalerie Kaufhäuser Sale in Paris
تصویر: Jean-Christophe Vergaegen/AFP/Getty Images

تارکين وطن کے ليے دنيا کے مہنگے ترين شہروں ميں پيرس، سنگاپور اور ہانگ کانگ تينوں مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر آئے ہيں۔ ايسا تاريخ ميں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تين شہر ايک ساتھ پہلی پوزيشن کے حقدار قرار پائے۔ يہ انکشاف ’اکانومسٹ انٹيليجنٹ يونٹ‘ (EIU) کے ايک تازہ مطالعے کی بنياد پر کيا گيا ہے، جس کے نتائج منگل کو جاری کيے گئے۔

تارکين وطن کے ليے دنيا کے مہنگے ترين شہروں کی فہرست ميں پيرس پچھلے سال دوسری پوزيشن پر تھا جبکہ اس سے پچھلے سال ساتويں پوزيشن پر تھا۔ پيرس، يورو زون کے رکن ملکوں سے اس فہرست کا حصہ بننے والا واحد شہر ہے۔ سروے کے مطابق رہن سہن کے لحاظ سے پيرس کافی مہنگا شہر ہے۔ پيرس ميں مردوں کے ايک اچھے ٹو پیس بزنس سوٹ کی قيمت اوسطاً دو ہزار ڈالر کے برابر بنتی ہے جبکہ عورتوں کو اگر کسی مناسب جگہ سے بال کٹوانے ہوں تو اس پر 120 ڈالر تک کا خرچہ آ سکتا ہے۔ ديگر يورپی شہروں سے مقابلہ کيا جائے، تو پيرس ميں شراب، ٹرانسپورٹ اور سگريٹ ہی ايسی اشياء ہيں، جن کی قيمتيں ديگر يورپی شہروں کے برابر ہيں۔

پاکستانی شہر کراچی اس فہرست ميں 129 ويں نمبر پر آيا ہے
پاکستانی شہر کراچی اس فہرست ميں 129 ويں نمبر پر آيا ہےتصویر: picture-alliance/Zumapress

تارکين وطن کے ليے دنيا کے مہنگے ترين شہروں ميں دس سرفہرست شہروں ميں يورپی اور ايشيائی شہر نماياں ہيں۔ اس فہرست ميں سوئٹزرلينڈ کا شہر زيورخ چوتھی پوزيشن پر ہے، اوساکا اور جنيوا پانچويں پوزيشن پر ہيں جبکہ سيئول اور کوپن ہيگن ساتويں پوزيشن پر ہيں۔ امريکی شہر نيو يارک بھی ساتويں پوزيشن پر ہے جبکہ لاس اينجلس اسرائيلی شہر تل ابيب کے ساتھ مشترکہ طور پر دسويں پوزيشن پر ہے۔

دريں اثناء پاکستانی شہر کراچی اس فہرست ميں 129 ويں نمبر پر آيا ہے۔

’اکانومسٹ انٹيليجنٹ يونٹ‘ (EIU) نے اس سروے کے ليے دنيا بھر کے 133 شہروں سے معلومات اکھٹی کيں۔ ادارے کے مطابق مقامی کرنسيوں کی قدر ميں کمی، افراط زر اور سياسی وجوہات نے اس سال کی اس درجہ بندی ميں کردار ادا کيا۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں