1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سترہ سالہ لڑکی کو طالبان کی جانب سے کوڑوں کی سزا

فرید اللہ خان، پشاور3 اپریل 2009

پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک ایسی ویڈیو دکھائی جارہی ہے جس میں طالبان کی جانب سے ایک سترہ سالہ لڑکی کو بدکاری کے الزام میں کوڑے مارے جارہے ہیں یہ ویڈیو اس سے قبل بین الاقوامی زرائع ابلاغ میں گردش میں رہی۔

https://p.dw.com/p/HPm1
اس ویڈیو کے بعد پاکستان بھر میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ کئیتصویر: picture-alliance/dpa

اس ویڈیو میں سرخ لباس میں ملبوس تحصیل کبل کے علاقہ کالاکلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کوبھرے مجمعے میں 34کوڑے مارے جارہے ہیں جس کے دوران مذکورہ لڑکی چیختی چلاتی رہی اس ویڈیو میں تین افرادنے خاتون کو پکڑ رکھا ہے جبکہ ایک شخص اس کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں کوڑے مارتا ہے۔

یہ واقعہ چھ ماہ قبل رونما ہوا ہے تاہم عوامی حلقوں میں اس بات تشویش کا اظہارکیاگیاکہ اگر ایسا ہوا ہے اوریہ بات حکومت کے علم میں تھی تو اس کے باوجود ایسے لوگوں کے ساتھ معاہدے کیوں کیے گئے۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ جس خاتون کو کوڑے مارے گئے وہ اپنے سسر کے ساتھ باہر نکلی تھی جو طالبان کی نظر میں غیر شرعی کام ہے اس پر طالبان نے انہیں 34کوڑوں کی سزا دی۔

طالبان کے ترجمان مسلم خان کاکہنا ہے کہ ’’ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا تھا جب سوات حالات جنگ میں تھا اس وقت سوات میں نہ قاضی تھے اورنہ ہی شوریٰ کا اجلاس بلانا ممکن تھا بلکہ مقامی طالبان نے چھان بین کے بعد خاتون اوراس کے سسر کو سزا دی۔ مسلم خان نے سرعام خاتون کو سزا دینے کی طریقے سے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ یکطرفہ ویڈیو چھ ماہ بعد دکھانے کا مقصد شریعت اور طالبان کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفر ت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

دوسری جانب سرحد حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والی تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ترجمان امیر عزت خان نے اس واقعہ کی نفی کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’ سوات میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف بہت ساری قوتیں متحرک ہیں اوریہ پرانی ویڈیو ٹیپ ایسے وقت میں ریلیز کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو لوگ شریعت اور اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ہم کوشش کریں گے کہ ایسے لوگوں کو بے نقاب کریں ان کا کہنا ہے کہ ملاکنڈ میں بااختیار قاضی عدالتوں کے ذریعے شرعی فیصلے اورفوری انصاف ہی تمام مسائل کاحل ہے اس کے علاوہ اس کے سدباب کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ اس واقعہ سمیت شریعت کے خلاف تمام واقعات کی مخالفت کریں گے تاہم اسے اسلام اور پاکستان دشمن عناصر کا پروپیگنڈہ قراردیاگیا ہے۔

دوسری جانب سرحدحکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ چھ ماہ قبل رونما ہونے والے واقعہ کی تشہیر آج کے دن کرنے کامقصد صاف ظاہر ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ واقعہ امن معاہدے سے کافی عرصہ قبل رونما ہواہے۔

’’صوبائی حکومت نے طالبان کی بجائے نفاذ شریعت محمدی کے ساتھ امن کے لئے مذاکرات کیے جس کے بعد ایک معاہدہ عمل میں لایاگیا جس کی روسے آج سوات میں قتل عام بند ہوگیا ہے تاہم امن معاہدے پر اعتراض کرنے والے بتائیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے حکومت امن معاہدے نہ کرے توپھر کون سا راستہ اختیار کرے۔‘‘