1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرتاج عزیز کی زبان کی لغزش یا نئی حکمت عملی؟

عدنان اسحاق3 مارچ 2016

پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے عوامی سطح پر قبول کیا ہے کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں موجود ہے۔ ان کے بقول اسلام آباد حکومت اس طرح اس گروپ پر دباؤ ڈالتی ہے تاکہ طالبان کابل حکام کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لے۔

https://p.dw.com/p/1I5u0
تصویر: DW

واشنگٹن میں وزارت خارجہ کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا،’’ہم ان پر کچھ اثر و رسوخ رکھتے ہیں کیونکہ ان کی قیادت پاکستان میں ہے۔ انہیں طبی سہولیات حاصل ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی یہیں موجود ہیں۔‘‘ اس تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر موجود دستاویز کے مطابق سرتاج نے مزید کہا، ’’اس طرح ہم ان پر مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں‘‘۔

طالبان قیادت کی پاکستان میں موجودگی اس سے قبل سفارتی حلقوں میں ایک کھلے راز کی حیثیت سے رکھتی تھی تاہم سرتاج عزیز نے ان افواہوں کی تصدیق کر دی ہے۔ اس طرح کی خبروں نے خاص طور پر اس وقت زیادہ جنم لینا شروع کیا تھا، جب گزشتہ برس موسم گرما میں پاکستان نے طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات شروع کرانے کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرنا شروع کی تھیں۔ تاہم افغان خفیہ اداروں کی جانب سے اس وقت طالبان قائد ملا عمر کے انتقال کی خبر جاری کیے جانے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستانی حکومت کے کسی اعلٰی اہلکار نے اس قسم کا بیان دیا ہے۔ اسلام آباد حکومت کئی سالوں سے طالبان کی قیادت کی پاکستان کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے۔

Pakistan Afghanistan Treffen Regierungsdelegation Außenministerium in Islamabad
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mughal

اندازہ ہے کہ افغان طالبان کے زیادہ تر قائدین جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں اور پھر کراچی میں موجود ہیں جبکہ کچھ پشاور میں بھی رہائش پذیر ہیں۔ سرتاج عزیز کے بقول اسلام آباد حکومت نے انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے بات چیت کے پہلے دور میں شرکت کرنے پر مجبور کیا تھا۔’’ گزشتہ برس سات جولائی کی ملاقات سے قبل ہم نے ان کی نقل و حمل محدود کر دی تھی، اسی طرح ہسپتال اور دیگر سہولیات کو بھی محدود بنا دیا تھا اور انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر تم آگے نہیں بڑھے تو ظاہر ہے ہم تمہیں ملک سے نکال دیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے اور ان مذاکرات کو کامیاب بنانا کابل حکومت کا کام ہے۔’’ ہم اصل میں کوئی مذاکرات کار نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس معاملے میں ہماری نیک نیتی کو تسلیم کیا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ افغان حکومت بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے میں فعال کردار ادا کرے گی۔‘‘

پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کے نمائندوں نے ابھی گزشتہ مہینے ہی کابل میں ملاقات کی تھی، جس کا مقصد کابل اور طالبان کے مابین امن بات چیت کے سلسلے کو بحال کرانا تھا۔ ان چاروں ممالک کے بقول طالبان نمائندوں کو مارچ کے پہلے ہفتے میں مذاکرات کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ تاہم طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں اس تناظر میں کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔