1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحد میں فوجی آپریشن، نقل مکانی انسانی المیہ

17 جون 2009

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں 30 لاکھ سے زائد لوگوں کی نقل مکانی، انسانی المیے کا روپ دھارتی نظر آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/IJaF
سوات مہاجرین کی خیمہ بستی کے قریب دو بچےتصویر: DW

80 فیصد سے زائد لوگوں کو ابھی تک سرکاری کیمپوں میں جگہ نہیں مل سکی ہے اور وہ عام گھروں، سکولوں، زیر تعمیر عمارتوں، اور سڑکوں پر پناہ لئے ہوئے ہیں۔ بےگھر ہونے والے ان افراد پر کیا گزر رہی ہے ۔یہ جاننے کے لئے ہمیں مردان کا رخ کرنا ہو گا۔

Pakistan Camp in Jalala
سخت گرمی ان متاثرین کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہےتصویر: DW

مردان شہر میں داخل ہوتے ہی جگہ جگہ متاثرین کیلئے لگائے گئے خیمے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے تمام بڑی شاہراہوں پر امدادی اداروں کے بینرز بھی لگے ہوئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے جگہ جگہ بے گھر ہونے والے خاندان بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی نے لکڑی پر چادر لٹکا کر خیمہ بنا رکھا ہے اور کسی نے درخت کی شاخ پر دوپٹہ لٹکا کر اپنا گھر بنا لیا ہے۔ یہاں سڑکوں گلیوں اور بازاروں میں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے دکھوں کا تذکرہ سنائی دیتا ہے۔

اس انسانی المیے کا ذمہ دار کون ہے؟ سوات یو نیورسٹی کے وائس چانسلر اور ممتاز دانشور ڈاکٹر محمد فاروق خان کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر ریاست کے خلاف ایک بغاوت ہے اور یہ بغاوت وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی اپنی ایک مخصوص تعیبر اسلام ہے۔ جس کی بنیاد یہ ہے کہ حکومت کرنا بنیادی طور پر علماء کا حق ہے یعنی کوئی جمہوریت نہیں، کوئی پارلیمنٹ نہیں، انصاف کی فراہمی جو ہے یہ بھی علماء کرام کا حق ہے اور جو بھی فیصلہ مسجد کا مولوی دے گا۔ وہ ہی حرف آخر ہو گا۔ ڈاکٹر فاروق کہتے ہیں کہ اگر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کامیاب ہو گیا تو اس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا۔ اس سے عام لوگوں کو احساس تحفظ بھی ملے گا اور اس سے دوسرے اکثریت پسندوں کو بھی یہ پیغام پہنچے گا کہ اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ بھی اپنی خیر منائیں۔

مالا کنڈ روڈ پر واقع جلالہ ریلیف کیمپ میں پنجاب حکومت کی طرف سے ایک میڈیکل سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں موجود ڈاکٹر عمر اسما عیل نے بتایا کہ ماحولیاتی آلودگی اور گردو غبار کی وجہ سے نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کو جلد، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ کیمپوں میں صاف پانی وافر مقدار میں موجود نہیں ہے۔ اس لئے بعض متاثرین کو پیٹ کے خراب ہونے یا پانی کی کمی ہونے کی شکایات کا بھی سامنا ہے۔ چونکہ یہاں پر مناسب غذا بھی نہیں مل رہی ہے۔ اس لئے کئی متاثرین جسمانی کمزوری کا شکار ہیں۔ اس لئے انہیں ملٹی وٹامن کی گولیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کے مریض بھی آرہے ہیں۔ ڈاکٹرعمر نے بتایا کہ وہ متاثرین جو شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں انہیں مناسب مانیٹرنگ کے بعد اپنی دوائی کی مقدار کو ڈاکٹر کے ذریعے دوبارہ تجویز کروانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیمپوں میں بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں کے حوالے سے مزید ادویات کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

Pakistan Malakand Road Flüchtlingslager
سوات مہاجرین کے لئے لگایا گیا ایک کیمپتصویر: DW

سوات سے بے گھر ہو کر آنے والے ایک شخص بادشاہ گل نے بتایا کہ ریلیف کیمپوں میں قائم میڈیکل ڈسپنسریوں پر موجود عملہ پیرا سیٹامول، ڈسپرین یا دیگر عام ادویات متاثرین کو فراہم کر رہا ہے جبکہ ان کے پاس نقل مکانی کر کے آنے والے ایسے لوگوں کے لئے مطلوبہ ادویات نہیں ہیں جو پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہیں۔

ایک خیمے میں موجود مینگورہ سے آئے محمد انور خان نے بتایا کہ کیمپوں میں فراہم کی جانے والی خوراک معیاری نہیں ہے اور ان ریلیف کیمپوں کے ارد گرد چار دیواری بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کیمپوں میں سانپوں کے ڈسنے کے واقعات بھی ہوچکے ہیں۔ شیخ شہزاد ٹاؤن کیمپ میں مسجد میڈیکل سنٹر، غسل خانے، امدادی تنظیموں کے دفاتر، ایک بہت بڑا لنگر خانہ اور پانی کے کولر وغیرہ موجود ہیں۔ یہاں پی ٹی سی ایل نے متاثرین کیلئے فری ٹیلیفون کی سہولت بھی مہیا کر رکھی ہے۔

Pakistan Kinder im Flüchtlingslager Yasin
کھانے کے حصول کے لیے ایک قطار میں لگے بچےتصویر: DW

سوات سے نقل مکانی کر کے آئے ہوئے ایک شخص ابراہیم خان نے بتایا کہ اس کے بچے اس کے علاقے میں محصور ہیں اور وہ وہاں سے جان بچا کر ریلیف کیمپ میں آیا ہے ۔ اب وہ اپنے بچوں کو وہاں سے نکالنے کے لئے رابطے کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کے دوران سویلین آبادی بھی تباہی کا نشانہ بن رہی ہے۔ طالبان اور فوج کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ اس جنگ کے نتیجے میں بے قصور عوام کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ان خیمہ بستیوں میں زندگی کے کئی رنگ بکھرے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں ڈھولک بھی بجتی ہے اور نماز جنازہ بھی پڑھائی جاتی ہے۔ نعرے بھی لگتے ہیں اور تلاوت بھی سنائی دیتی ہے۔

نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کی اس بستی میں ایک بچی لیلیٰ بھی مقیم ہے جو اپنے خیمے سے باہر آ کر جب پشتو زبان میں لکھا گیا وہ گیت گاتی ہے جس میں اپنی مٹی چھوڑنے کا دکھ بیان کیا گیا ہے تو اس گیت کو سننے والوں کی آنکھےں نم سی ہو جاتی ہیں۔ وقفے وقفے سے کیمپوں میں ایسے اعلانات بھی سنائی دیتے ہیں جن میں اپنوں سے بچھڑنے والے اپنے عزیزوں کی تلاش میں سر گرداں دکھائی دیتے ہیں۔ سوات سے ہی تعلق رکھنے والی ایک خاتون ملکیت خانم کہتی ہیں کہ سوات کی صورتحال نے بچوں کی پڑھائی کو بہت بری متاثر کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے تعلیمی سرگرمیاں بہت بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو اس مسئلے کا بھی کوئی حل فراہم کرنا چاہیے۔

نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کی ان بستیوں میں لگا ہر خیمہ دکھوں اور پریشانیوں کی داستان لئے ہوئے ہے۔ یہاں کے کئی مکینوں کو یہ گلہ ہے کہ ان کی حالت اتنی اچھی کیوں نہیں ہے جتنی کہ سرکاری حکام ذرائع ابلاغ پر بتاتے ہیں۔

رپورٹ : تنویر شہزاد

ادارت : عاطف توقیر