1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سردی شدید، مگر مہاجرین کا بہاؤ نہیں رکا

عاطف توقیر15 جنوری 2016

شدید سردی کے باوجود مہاجرین کے جرمنی میں داخل ہونے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ رواں برس کے آغاز سے اب تک پچاس ہزار سے زائد نئے مہاجرین جرمنی میں رجسٹر کیے جا چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1He4C
Türkei Flüchtlinge in der Van Provinz
تصویر: picture-alliance/AA/O. Bilgin

جرمن اخبار ’بِلڈ‘ کے مطابق ملک میں داخل ہونے والے نئے تارکین وطن کی تعداد میں شدید سردی کے باوجود اب تک کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ غربت اور جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مشرقی یورپ سے شمالی اور مغربی یورپ کی جانب اپنے سفر کو موقوف کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق جرمن ادارہ برائے مہاجرین و پناہ گزین BaMF یکم جنوری سے اب تک 51 ہزار تین سو 95 مہاجرین کو رجسٹر کر چکا ہے۔

مہاجرین کے یورپی یونین میں داخلے کے بہاؤ کو روکنے کے لیے یونین شمالی افریقہ میں ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں توسیع پر غور کر رہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کسی ملک کے محفوظ قرار دیے جانے کے بعد وہاں کے مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کو رد کر دینے اور ایسے ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو ملک بدر کر دینے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

Auf dem Weg nach Deutschland oder Schweden Flüchtlinge in Kroatien
شدید سردی کے باوجود مہاجرین کی تعداد کم ہوتی دکھائی نہیں دیتیتصویر: DW/Z. Ljubas

چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو کی جنوبی صوبے باویریا میں ہم خیال جماعت سی ایس یو کے پارلیمانی گروپ کے ترجمان اشٹیفان مائر کے مطابق، ’’ہمیں ہر حال میں محفوظ ممالک کی فہرست میں اضافہ کرنا ہو گا، تاکہ جرمنی میں سماجی بہبود کے نظام کو غیرمعمولی دباؤ سے بچایا جا سکے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مراکش اور اس طرح کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی جرمنی آمد کا مقصد صرف اور صرف ’ہمارے سماجی بہبود کے نظام کو استعمال‘ کرنا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس جرمنی میں 1.1 ملین تارکین وطن داخل ہوئے۔ تاہم جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے مہاجرین کی تعداد نمایاں طور پر کم یعنی صرف چار لاکھ 77 ہزار رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رجسٹریشن ہونے کے بعد سیاسی پناہ کی درخواست دینے کے طریقہ کار کی تکمیل میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔

تاہم یورپ بھر میں سب سے زیادہ سیاسی پناہ کی درخواستیں جرمنی ہی میں موصول ہوئیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق جنگ زدہ ملک شام سے ہے۔