1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا: تامل علاقے میں سینکڑوں عام شہریوں کی ہلاکتیں

تحریر:ندیم گِل، ادارت: عابد حسین10 مئی 2009

سری لنکا میں فوج کے خیال میں وہ تامل علیحدگی پسندوں کو مکمل شکست دینے کے قریب ہے مگر ابھی اِس اعلان کو خواب قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ تامل باغیوں کی مزاحمت جاری ہے۔ اِس صورت میں وہاں پھنسے عام شہری خاصی مشکل میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/Hn6o
سری لنکا کے تامل باشندے، حکومتی نگرانی کے کیمپ میں خوراک حاصل کرتے ہوئےتصویر: AP

تامل باغیوں نے الزام لگایا ہے کہ ملک کے شمالی علاقے میں فوج کی شیلنگ سے دوہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ تاہم فوجی ترجمان نے شیلنگ کی تردید کی ہے۔

جنگی علاقے میں کام کرنے والے محکمہ صحت کے ایک Dr. V. Shanmugarajah کے مطابق شیلنگ کی زد میں آ کر کم از کم 378 افراد ہلاک جبکہ 1100 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

Bürgerkrieg Sri Lanka
پانی کے راستے محفوظ مقامات تک پہچنے والے تامل باشندےتصویر: AP

انسانی ‌حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ روز ہی الزام عائد کیا تھا کہ فوج جنگی علاقے میں خاص طور سے ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ فوج اور تامل باغی ایک دوسرے پر شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام کافی عرصے سےعائد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سری لنکن حکام کے مطابق تامل باغی تقریبا بیس ہزار شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ تعداد پچاس ہزار کے قریب ہو سکتی ہے۔

سری لنکا کی حکومت نے جنگی علاقے میں غیرملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

رواں برس کے آغاز پر ہی سری لنکا نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے شورش زدہ شمال مشرقی علاقے میں باغیوں کے خلاف جاری لڑائی اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔ اسی دوارن لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے زیرانتظام آخری علاقے کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا گیا اور لڑائی صرف ایک مختصر سے ساحلی پٹی پر جاری ہے جو گھنے جنگلات سے پھری ہوئی ہے۔

Sri Lanka Bürgerkrieg
تامل علاقے میں گشت پر مامور سری لنکن فوج

دوسری جانب امدادی تنظیموں کے مطابق لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں ابھی تک ہزاروں عام شہری پھنسے ہوئے ہیں اور اُن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اُن کو کئی قسم کی اشیاء کی قلت کا سامنا ہے۔ اِن میں کئی بیمار اور زخمی ہیں۔

متاثرہ علاقوں سے بچ نکلنے والے شہریوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق باغی شہریوں کو علاقہ چھوڑنے سے روکتے ہیں۔ حقوق انسانی کی تنظمیں بھی بارہا اِن معصوم شہریوں کو محفوظ مقامات تک جانے کی اپیل کر چکی ہیں۔ جبکہ ایل ٹی ٹی ای یا تامل باغیوں کی تنظیم ان بیانات کی تردید کرتی ہے۔

تامل باغیوں کے رہنما ویلوپلائی پربھاکرن کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے دیکھا نہیں گیا۔ خیال ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں یا سری لنکا سے فرار ہو گئے ہیں۔ تاہم سری لنکا کے وزیر اعظم رتنسیری وکرمنایاکے نے گزشتہ ہفتے پارلیمان کو بتایا تھا کہ پربھاکرن ابھی تک باغیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔

سری لنکن فوج نے2007 میں ملک کے شمالی علاقے کا کنٹرول باغیوں سے چھین لیا تھا، پھر بھی وہاں وقفے وقفے سے فوج اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔ مکمل کنٹرول کے لئے سری لنکا کی فوج کو سرکتے ہوئے انداز میں پیش قدمی کرنا پڑی تھی ۔

تامل باغیوں اور فوج کے درمیان 1983 سے جاری اس لڑائی میں اب تک 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔