1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Diplomarbeit Kopftuch

30 جون 2011

ترکی ميں يونيورسٹيوں اور سرکاری دفاترميں خواتين کے ليے سرکو ڈھانپنا ممنوع ہے۔ يورپ کے بہت سے ممالک اور امريکہ کی طرح جرمنی ميں بھی سر ڈھانپنے والی مسلم خواتين کو امتيازی سلوک اور تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/11mNK
عائشہ تاچی کے مقالے کے آغاز کی تصوير
عائشہ تاچی کے مقالے کے آغاز کی تصويرتصویر: A.Tasci-Steinebach

عام طور پر مسلم خواتين، جو اسکارف يا دوپٹہ استعمال کرتی ہيں، اُس سے ان کا سر اور سينہ ڈھک جاتا ہے۔ جرمنی کی ايک 28 سالہ ترک خاتون عائشہ تاچی نے اپنے ڈپلومے کے مقالے ميں سر ڈھانپنے کے اسی اسکارف يا رومال کو موضوع بنايا ہے۔ انہوں نے اپنے مقالے کے آغاز ميں ايک مسلم خاتون کو سر ڈھانپے ہوئے دکھايا ہے۔ تاچی اس فوٹو کے ذريعے سر کو ڈھانپنے والے اسکارف سے متعلق ديکھنے والے کے تعصبات کو دور کرنا چاہتی ہيں۔

مذہب اسلام کی پيروکار ترک خاتون عائشہ تاچی ترکی ميں آئدين شہر ميں پيدا ہوئی تھيں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے والدين کی طرف سے اُنہيں خاصی آزادی ملی تھی۔ اسکول سےفارغ ہونے کے بعد اُنہوں نے استنبول کی مارمرا يونيورسٹی ميں فوٹو گرافی کی تعليم شروع کی۔ ترکی ميں اعلٰی تعليمی اداروں اور سرکاری اداروں ميں خواتين کے ليے سر کو اسکارف سے ڈھانپنے پر پابندی ہے۔ تاچی کا کہنا کہ مسلم طالبات اور خواتين اس پابندی سے بچنے اور اسلامی اسکارف سر پر باندھنے کے ليے بہت سے جتن کرتی ہيں۔ مثلاً وہ سر کو ٹوپی سے ڈھانپتی يا مصنوعی بالوں والی ٹوپی پہنتی ہيں۔ تاچی کے ڈپلومے کے مقالے ميں مصنوعی بالوں کی ٹوپی پہنے طالبہ کا ايک فوٹو بھی ہے۔

عائشہ تاچی
عائشہ تاچیتصویر: A.Tasci-Steinebach

عائشہ تاچی سات سال قبل جرمنی آئی تھيں۔ پہلے وہ صرف جرمن زبان سيکھنا چاہتی تھيں۔ اُنہيں جرمن يونيورسٹيوں کے متعلق اچھی باتيں سننے کو ملی تھيں۔ جرمنی ميں قيام کے دوران انہوں نے ديکھا کہ يہاں بہت سی مسلم خواتين سر پر رومال باندھتی ہيں۔ انہيں يہ بھی معلوم ہوا کہ جرمنی ميں بھی سر ڈھانپنے والی مسلمان خواتين کے بارے ميں بہت سے تعصبات پائے جاتے ہيں اور اکثر يہ سمجھا جاتا ہے کہ يہ خواتين اپنے گھرانوں کے مردوں کے دباؤ پر ايسا کرتی ہيں اور يہ کہ ان ميں سے اکثر کم تعليم يافتہ ہوتی ہيں۔

عائشہ تاچی کے مقالے ميں اسکارف کا ايک اور فوٹو
عائشہ تاچی کے مقالے ميں اسکارف کا ايک اور فوٹوتصویر: A.Tasci-Steinebach

تاچی خود سر نہيں ڈھانپتيں اور اُن کے خيال ميں يہ صرف اُن کے اور اللہ کے درميان کا معاملہ ہے، جس کا تعلق کسی اور سے نہيں ہے۔ ليکن سر ڈھانپنے والی خواتين نے اس پر اُن سے اتفاق نہيں کيا۔ اس کے بعد تاچی نے سر کے رومال يا اسکارف کے موضوع کو تصويری شکل دينے کا عزم کيا۔ انہوں نے سر ڈھانپنے والی مسلم خواتين کی تصاوير اس انداز سے اتاريں کہ اُن ميں سر کا رومال بہت نماياں دکھائی ديا اور چہرہ پس منظر ميں چلا گيا۔ ان کا مقصد بھی رومال کے نماياں ہونے اور اس کو پہننے واليوں کے چہروں اور شخصيتوں کے پس منظر ميں رہ جانے کی عکاسی کرنا تھا۔ ان کو يہ اميد تھی کہ اس طرح ديکھنے والے رومال کے پيچھے چھپی شخصيت کے بارے ميں جاننے کے ليے متجسس ہو جائيں گے۔

عائشہ تاچی کو اس دوران يہ بھی معلوم ہوا کہ مسلم خواتين صرف مذہبی وجوہات کی بنا پر ہی سر پر رومال نہيں پہنتيں، بلکہ وہ فيشن اورمردوں کے تنگ کرنے سے بچنے کے ليے بھی ايسا کرتی ہيں۔

رپورٹ: با يرٹ،کرسٹينا / شہاب احمد صديقی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں