1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی خواتین کے لیے سفر کی آزادی؟

16 جولائی 2019

بات سفر کی ہو تو سعودی خواتین تاحیات ’نابالغ‘ ہی رہتی ہیں۔ سفر کے لیے انہیں ہمیشہ کسی مرد سرپرست کی اجازت درکار ہوتی ہے لیکن یہ صورت حال جلد ہی تبدیل ہونے والی ہے۔ کیا یہ ایک حقیقی تبدیلی یا صرف علامتی سیاست ہو گی؟

https://p.dw.com/p/3M8fF
Saudi Arabien Frauen mit Burka auf der Straße
تصویر: AFP/F. Nureldine

میڈیا رپورٹوں کے مطابق رواں برس سعودی خواتین کسی مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر بھی سفر کرنے کی اہل ہو جائیں گی۔ اس حوالے سے وال اسٹریٹ جنرل اور فنانشل ٹائمز نے رپورٹیں شائع کی ہیں۔ ان دونوں جریدوں نے ان سعودی اہلکاروں کا حوالہ دیا ہے، جو اس قانون سازی میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جلد ہی اٹھارہ برس سے زائد عمر کے خواتین اور حضرات بغیر کسی محرم مرد کی اجازت کے تنہا سفر کرنے اور سعودی عرب چھوڑنے کی اجازت ہو گی۔ فی الحال سعودی قانون کے مطابق یہ اجازت اکیس برس سے زائد عمر کے مردوں کو حاصل ہے اور خواتین کے لیے اس عمر میں بھی کسی مرد سرپرست کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔

سعودی عرب کا یہ قانون حال ہی میں اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آیا، جب متعدد سعودی خواتین نے ملک سے فرار ہوتے ہوئے بیرون ملک جا کر سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ 

سعودی عرب میں ہر خاتون کا کوئی مرد سرپرست ہوتا ہے، پہلے یہ والد ہوتا ہے لیکن شادی کے بعد سفر کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا اختیار شوہر کے پاس چلا جاتا ہے۔ غیر شادی شدہ خواتین کا سرپرست ان کا بھائی، چچا یا پھر کوئی اور محرم مرد بھی ہو سکتا ہے۔  اسی طرح بیوہ خواتین اپنی بیٹے کو بھی اپنا سرپرست بنا سکتی ہیں۔

اگر سفر کے لیے کسی مرد سرپرست کی اجازت ختم بھی کر دی جاتی ہے، تو بھی دیگر پابندیاں بالکل پہلے کی طرح ہی قائم رہیں گی۔ کسی بھی خاتون کے لیے گھر چھوڑنے اور شادی سے پہلے کسی مرد سرپرست سے اجازت لینا لازمی ہو گا۔

حکومت کی طرف سے اس خبر کی ابھی تک نہ تو تردید کی گئی ہے اور نہ ہی تصدیق لیکن سعودی حکومت کے حامی سیاستدان محمد الزلفیٰ کا کہنا ہے کہ ایسا عین ممکن ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ خواتین تو خود اتنی بڑی ہو چکی ہوتی ہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہیں۔ یہ خود کام کرتی ہیں اور ذمہ داریاں اٹھاتی ہیں۔‘‘ ان کے مطابق سعودی خاتون نہ تو کمزور ہے اور نہ ہی اسے کسی محافظ کی ضرورت ہے۔

اس سعودی سیاستدان نے بھی اس خبر کی تصدیق تو نہیں کی لیکن ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات کے پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے حق میں ہیں اور اگر اس فیصلے سے خواتین کی بہتری ہو گی تو اس کا خیر مقدم بھی کیا جائے گا۔

دوسری جانب ناقدین کے مطابق سعودی ولی عہد بس وہی اصلاحات چاہتے ہیں، جو ان کی سیاست کے لیے فائدہ مند ہیں اور وہ ملک میں سیاسی لبرلائزیشن کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ ناقدین خواتین کے حقوق کے لیے کوشاں ان کارکنوں کا حوالہ دیتے ہیں، جو سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔

اسماعیل نیرمان ا ا / ع ح