1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن دو ہزار نو: گمبھیر اقتصادیات کا سال

عابد حسین1 جنوری 2009

سن دو ہزار آٹھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ نیا سال شروع ہو گیا ہے۔ اقوام کے درمیان جہاں اور کئی تنازعات ورثے میں نئے سال کو ملے ہیں اُس میں مالیاتی بحران شاید سب سے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/GQ4r
یورو زون کی یورو کرنسیتصویر: AP Graphics

سن دو ہزار آٹھ کے دوران عالمی اقتصادیات کو جس سیاہ آندھی نے گھیرا ہے اُس کے چُنگل سے بڑی بڑی اقتصادیات کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل پا رہا۔ حکومتوں کے امدادی پیکجوں کے علاوہ خصوصی مراعاتی تحریکی تجاویز اور کوششوں سے بھی عالمی معاشیات میں پیدا شدہ جمود کو ابھی تک ختم کرنا دور کی بات تصور کی جا رہی ہے۔

اِس تناظر میں عالمی مالیاتی نظام پر بھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایسے خدشات ابھی ختم نہیں ہوئے کہ کہیں اِس نظام کا محل زمین بوس نہ ہو جائے۔ مالی منڈیوں کی دی جانے والی آزادی حقیقت میں بوتل کا جن ثابت ہوا ہے جو اب کسی طور واپس جانے کا نام نہیں لے رہا۔

79 Cents für einen Dollar
امریکی ڈالر اور سکےتصویر: AP

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہ ڈومینِک سٹراس کہان نے سن دو ہزار نو کو عالمی اقتصادیات کے لئے بُرا سال قرار دیا ہے۔ ماہرین کے خیال میں کئی ملکوں میں مزید مالیاتی اداروں کے دیوالیہ ہونے کا بھی یہ سال ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں سن دو ہزار نو کو اقتصادی درد کا سال سمجھا جا رہا ہے۔ حکومتوں کی کم مدتی پالیسیوں کا جلد اثرات ظاہر ہونے کا امکان کم ہے اور طویل المدتی پالیسیاں بے اثر ہونے کا خوف بھی حکومتوں کا لاحق ہو چکا ہے۔

بظاہر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود مالی منڈیوں میں اعتماد بحال نہیں ہو سکا۔ اب امریکہ کی بات لیں تو وہاں کار انڈسٹری سے لے کر ملک کے اہم مالیاتی اداروں سمیت منڈیوں میں بھی اقتصادی خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ زوال پذیر مالی اداروں اور کمپنیوں سے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بیس جنوری کو اپنے عہدہٴ صدارت سے فارغ ہونے والے امریکی صدربُش کے امدادی پیکج ابھی تک کم محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اور پریشان حال اقتصادی حلقے نئے صدر باراک اوبامہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

مالیاتی بحران کی زد میں آ کر سٹاک ایکسچینج کے اندر جو بدحالی پیدا ہو ئی اُس کی مثال نہیں ملتی۔ مفروضوں اور اندازوں پر دیئے جانے والے بینکوں کے قرضے کی وسعت اور بوجھ تلے کئی بینک ہی نہیں کئی بڑے بڑے کارخانے بھی دیوالیہ ہو نے کے قریب ہیں۔ آٹو انڈسٹری کے علاوہ کئی اور بڑی کمپنیاں بھی اقتصادی زلزلے کے باعث لرز رہی ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی دوا ساز کمپنی LyondellBasell بھی دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنے والی ہے۔

USA Finanzkrise New York Börse Wall Street Straßenschild
امریکی مالی منڈی وال سٹریٹتصویر: AP

پاکستان کے ممتار ماہر اقتصادیات شاہد کاردار کے مطابق ابھی تک جو اقتصادی بد حالی کا گڑھا جنم لے چکا ہے اُس کے حجم کا اندازہ نہیں ہو پا رہا، یہ عمر عیار کی زنبیل کی مانند دکھائی دے رہا ہے ، اربوں ڈالر ڈالنے کے باوجود تحریک نام کی شے کا احساس نہیں ہے۔

امریکہ کے علاوہ کینیڈا بھی ایسی کیفیت سے دوچار ہے وہاں پہلے ہی کئی سالوں سے کاروبار اور اقتصادیات میں سست روی پیدا تھی۔ اِدھر یورپ میں بھی کئی اہم ملک امریکہ کی طرح اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ برطانیہ، آئر لینڈ، جرمنی سمیت کچھ اور ملکوں کے اقتصادی ماہرین نے اعتراف کر لیا ہے کہ اُن کے ملک اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہو چکے ہیں۔

Wirtschaft Handel Geld Euro
یورو کرنسیتصویر: picture-alliance / Helga Lade Fotoagentur GmbH

خام تیل کے ایک بیرل کی قیمتیں آسمان کو چھونے کے بعد اب خاصی نیچے پہنچ گئی ہے۔ اِس مناسبت سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو اگر وسط سن دو ہزار آٹھ میں خاصی آمدن ہو ئی تو اُن کو انجام سال پر خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس مناسبت سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں عمومی اور امریکہ میں خاص طور پر سن دو ہزار نو کے درمیان تیل کی مزید کھپت کم ہونے کا امکان ہے اور اِس صورت میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان اِس سال بھی جاری رہ سکتا ہے یا اُن میں عدم استحکام کی کیفیت رہے گی۔

چین کا خیال ہے کہ سن دو ہزار نو کے درمیان وہ سخت اقتصادی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہو گا اور نرم معاشی رویوں سے ملکی اقتصادیات کے اندر مزید تحریک پیدا کی جائے گی۔ امریکہ میں مالیاتی بحران کے بعد عوام الناس کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے چین کی پیداواری صنعت خاصی متاثر ہو چکی ہے اور کئی چھوٹے کارخانے اپنی مصنوعات کی مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں۔

اِسی طرح مشرق بعید کے ایک اہم ملک اور اُس خطے کی سب سے بڑی اقتصادیات کے حامل انڈو نیشیا میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ سن دو ہزار آٹھ میں اقتصادی سست روی کو ختم کرنے کے لئے مزید امدادی اور تحریکی منصوبوں سے کمزور ہو تی معاشیات کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اِس میں ٹیکس کٹوتی سے لیکر کئی دوسرے پراجیکٹس زیر غور ہیں۔

حکومتوں کے بجٹ خسارے میں مسلسل اضافہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اقتصادی شرح رفتار میں مالیاتی بحران کے بعد پیدا ہونے والی رکاوٹیں ہیں۔ حکومتیں اس پر تیار نہیں کہ وہ عوام کو ٹیکس کی مد میں چھوٹ دیں تا کہ اُن کی قوت خرید بڑھ سکے اور ایسا کرنے سے حکومتوں کو سالانہ آمدن میں کمی کا خوف ہے۔ اب اِس خوف کے باعث اقتصادی سیاہ آندھی کس رخ چلتی ہے یہ تو اگلے دِن ہی بتائیں گے۔