1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں آپریشن مزید تیز

فرید اللہ خان، پشاور27 جنوری 2009

سیکورٹی فورسز نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن تیز کردیا ہے تیسرے روز بھی تحصیل کبل سمیت متعدد علاقوں میں کرفیو رہا۔

https://p.dw.com/p/GhLt
پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار آپریشن کے دورانتصویر: AP

اس آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی ہے۔ شہری علاقوں پر بمباری کی وجہ سے ایک خاتون سمیت دس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی اور متعدد مکانات مہندم ہوگئے ہیں۔ شہری علاقوں پر اس بمباری کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کرناچاہتے ہیں تاہم تین دن سے مسلسل کرفیو کی وجہ سے وہ زخمیوں اوربیمار افراد کو بھی باہرنہیں نکال سکتے کیونکہ کرفیو کے دوران باہر نکلنے والوں کوگولی مارنے کاحکم دیا گیا ہے۔ آپریشن اورسردی کی شدت میں اضافے کے باوجود طالبان کی کاروائیاں بھی جاری ہیں اور آج ایک اور سکول کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔ یوں تباہ ہونے والے سکولوں کی تعداد 187ہوگئی ہے۔ طالبان کی کارروائیوں کے باوجود صوبائی حکومت بار بار انہیں مذاکرات کی دعوت دیتی ہے۔

سینئر صوبائی وزیر بشیراحمد بلور کا کہنا ہے کہ ’’ جو لوگ اسلحہ رکھ کر بات چیت کیلئے تیار ہوں ہم ان سے مذاکرات کریں گے لیکن جہاں تک دھمکیوں کا تعلق ہے ہم کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے پہلے بھی اس طرح کی دھمکیاں دی گئیں لیکن ہم ان سے ڈرنے والے نہیں ہیں‘‘۔

Pakistan Islamabad Unruhen Rote Moschee Militär
پاکستان سیکیورٹی فورسز نے سوات میں کرفیو لگا رکھا ہے اور اس وقت اس میں کافی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہےتصویر: AP

دوسری جانب پاکستان میں مقیم امریکی سفیر این ڈبلیو پٹرسن نے وزیر اعلی سرحد سے ملاقات کی ہے اس ملاقات میں سوات اور قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال اور امریکی امداد سے متعلق امور زیر بحث آئے امریکی سفیر نے فرنٹیر کور کےلئے فوجی سامان میجر جنرل طارق خان کے حوالے کیا۔

2003ء سے پاکستان امریکہ سے فارن ملٹری گرانٹ کے طورپر 297ملین ڈالرز سالانہ وصول کررہا ہے تاکہ مقامی شدت پسندوں اور القاعدہ کامقابلہ کیاجاسکے۔ پاکستان نے ایک لاکھ سے زیادہ فوج افغانستان سے ملحقہ سرحد پر تعینات کی ہوئی ہے جہاں وہ القاعدہ اور طالبان کی شکل میں عسکریت پسندوں سے نبردآزما ہیں لیکن واشنگٹن پاکستان کے ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہے اور قبائلی علاقوں میں القاعدہ اورطالبان کے خلاف مزید اقدامات اٹھانے کا کہا جا رہا ہے۔ ان اقدامات پر امریکی عدم اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اخراجات کا بل 156ملین ڈالرز میں سے 55 ملین ڈالرز کی کٹوتی کر دی گئی ہے یہ کٹوتی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب پاکستان نے معاشی بحران سے نکلنے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے کو 7.6ملین ڈالرز قرضے کی درخواست دی ہے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس کٹوتی کے باعث پاکستانی معیشت مزید ابتر ہوسکتی ہے لیکن امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ پاکستان کی امداد ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں قیام امن سے مشروط کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کی خواہش ہے کہ پاکستان سرحدی قبائلی علاقوں میں القاعدہ اورطالبان کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے۔ دوسری جانب سماجی ترقی اورفوجی امداد کے طورپر پاکستان کو دس سے سترہ ارب ڈالرز تک امداد دی ہے لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ سٹیٹ ہونے وجہ سے پاکستان اس سے کئی گنازیادہ کا نقصان اٹھا چکا ہے۔