1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سورج زمین پر: دنیا کا سب سے بڑا ’مصنوعی سورج‘ چمکنے لگا

علی کیفی AP, dpa
23 مارچ 2017

جمعرات تئیس مار چ سے جرمنی کے شہر ژیولِش میں دنیا کے سب سے بڑے مصنوعی سورج نے کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ’سورج‘ ایک سو اُنچاس بڑے بڑے لیمپوں پر مشتمل ہے۔ اس تجربے کا مقصد توانائی کے نئے ماحول دوست ذرائع تلاش کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZnyB
BdT Große künstliche Sonne "Synlight"
جرمن ایرو اسپیس کا ایک کارکن ایک سو اُنچاس بڑے بڑے لیمپوں سے بنے ’مصنوعی سورج‘ کے سامنے کھڑا ہوا ہے تصویر: picture-alliance/dpa/C. Seidel

یہ دیو ہیکل لیمپ اُسی طرح کے ہیں، جیسے فلم پروجیکٹرز کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ’مصنوعی سورج‘ کا Synlight نامی یہ تجربہ جرمن شہر کولون سے تیس کلومیٹر مغرب کی جانب ژیولِش میں کیا جا رہا ہے۔ جرمن ایرواسپیس سینٹر ڈی ایل آر کے سائنسدان اس ’مصنوعی سورج‘ کی تیز روشنی اور حرارت کے ساتھ تجربات کرتے ہوئے یہ پتہ چلانا چاہتے ہیں کہ سورج سے جو بے پناہ توانائی روشنی کی صورت میں زمین تک پہنچتی ہے، اُسے کیسے زیادہ مؤثر طریقے سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

ان تجربات کے دوران جن نکات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، اُن میں سے ایک کا تعلق مؤثر طور پر ہائیڈروجن پیدا کرنا ہے، جو کہ طیاروں کے لیے مصنوعی ایندھن تیار کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ تجربات کا مقصد پانی کے خلیوں کو توڑ کر آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم کرنا ہے۔ ہائیڈروجن کو خاص طور پر مستقبل کی ماحول دوست ترین توانائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

Große künstliche Sonne "Synlight"
’مصنوعی سورج‘ کے ایک سو اُنچاس لیمپوں میں سے ایک کا اندرونی منظرتصویر: picture alliance/dpa/C. Seidel

سورج بنیادی طور پر توانائی فراہم کرتا ہے لیکن اس ’مصنوعی سورج‘ کو چلانے کے لیے توانائی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ ان تجربات میں استعمال ہونے والے لیمپ بجلی سے چلتے ہیں۔

چار گھنٹوں کے اندر اندر ان تجربات میں اتنی بجلی استعمال ہوتی ہے، جتنی کہ چار ارکان پر مشتمل ایک گھرانہ پورے ایک سال میں استعمال کرتا ہو گا۔

یہ تجربات قدرتی ماحول میں اس لیے نہیں ہو سکتے کہ دھوپ کی شدت مختلف مقامات پر بار بار بدلتی رہتی ہے اور اسی لیے لیبارٹری کے اندر یہ ’مصنوعی سورج‘ تیار کیا گیا ہے تاکہ تجربات کے لیے مسلسل ایک ہی شدت کی روشنی اور حرارت میسر آ سکے۔

Große künstliche Sonne "Synlight"
جرمنی میں ژِیولِش کے مقام پر جرمن ایرواسپیس سینٹر کی وہ عمارت، جہاں ’مصنوعی سورج‘ کا تجربہ کیا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa/C. Seidel

لیبارٹری کے اندر تجربات سے زیادہ ٹھیک ٹھیک نتائج حاصل ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ پانی کے خلیات کو توڑ کر ہائیڈروجن حاصل کرنے کا ایسا طریقہ معلوم ہو سکے گا، جو آج کل رائج طریقوں کے مقابلے میں کافی سستا بھی پڑے گا۔

اس ’مصنوعی سورج‘ کی روشنی اصل سورج کی روشنی سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے اندر استعمال کیے جانے والے اور اندر سےچمکدار سطح رکھنے والے لیمپوں میں سے ہر ایک کا قطر ایک میٹر سائز کا ہے۔

تمام ایک سو اُنچاس لیمپوں کو ایک چودہ میٹر اونچے اور سولہ میٹر چوڑے تختے پر شہد کی مکھیوں کے چھتے جیسی شش پہلو شکل میں نصب کیا گیا ہے۔

ان تمام لیمپوں کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے سے اتنی زیادہ روشنی حاصل ہوتی ہے، جو دس ہزار سورجوں جتنی تیز ہوتی ہے۔ اس ’مصنوعی سورج‘ سے دیواروں پر پڑنے والی بالواسطہ روشنی کی حدت بھی اتنی شدید ہے کہ انسان اُسے محض ایک سیکنڈ تک ہی برداشت کر سکتا ہے۔