1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کی جنگ

بینش جاوید
31 اکتوبر 2016

سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ صوابی، بنی گالا رائزز، ہارون آباد اور پی ٹی آئی کے دھرنے سے متعلق دیگر ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون دونوں کے مابین سوشل میڈیا پر چھائے رہنے کا دلچسپ مقابلہ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/2RxGW
Pakistan - Polizei nimmt unterstützer der Oppositionspartei fest
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں نے خیبر پختونخواہ سے اسلام آباد آنے والے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی تاکہ مظاہرین کو منتشر کیا جاسکے اور وہ اسلام آباد پہنچنے میں ناکام ہو جائیں۔

صوابی سے پی ٹی آئی کے کارکنان نے سوشل میڈیا پر حکومت کی جانب سے لگائے گئے کنٹینرز کی تصاویر شئیر کیں تو مریم نواز شریف اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بتا رہی تھیں کہ صوابی میں آج پی ایم ایل این نے کتنا کامیاب جلسہ کیا۔

پی ٹی آئی کے صوبائی وزیرعلیٰ امین گنڈا پور کی گاڑی سے برآمد ہونے والے اسلحہ سے متعلق ٹوئیٹ کرتے ہوئے سید طلعت حسین نے لکھا،’’ تصور کریں کہ اگر اسلحہ اور غیر قانونی سامان کسی اور سیاسی جماعت کے رکن کی گاڑی سے ملا ہوتا تو کیا ہوتا ؟‘‘

گل بخاری نے لکھا،’’پرویز خٹک شور، ہنگامے اور بد نظمی کی قیادت کر رہے ہیں، کچھ بھی ہو یہ لوگ تاریخ بن جائیں گے۔‘‘

اعجاز نامی ایک صارف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’جو لوگ کہتے ہیں میاں صاحب نے بھی تحریکیں چلائی تھی اس لئے عمران خان تحریک چلا رہا ہے پہلے وہ تحریک اور انتشار کا فرق تو سمجھ لیں۔‘‘ اس ٹوئیٹ کو مریم نواز شریف نے اپنے اکاؤنٹ سے ری ٹوئیٹ بھی کیا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکنان کے خلاف حکومت کے مبینہ کریک ڈاؤن کو سوشل میڈیا پر کڑی تنقید نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ٹی وی اینکر معید پیرزادہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ’’ پنجاب پولیس کا خیبر پختونخواہ کے چیف منسٹر کو تشدد کا نشانہ بنانا پاکستان کی تاریخ میں ایک انتہائی گرا ہوا عمل ہے۔ ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ 1971ء کا واقعہ کیسے پیش آیا؟‘‘

ثنا بچہء نے لکھا،’’ ہم دہشت گردانہ حملے تو روک نہیں سکتے، ہمارے پاس جرم کو روکنے کے لیے تو کبھی مناسب سکیورٹی نہیں ہوتی لیکن دھرنے کو روکنے کے لیے پوری سکیورٹی موجود ہے۔‘‘

مشرف زیدی نے پی ٹی آئی کے رکن ڈاکٹرعارف علوی کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیے جانے پر ٹوئیٹ میں لکھا،’’ انتہائی شرمناک عمل، ڈاکٹر علوی اس ملک کے ایک مہذب منتخب شدہ نمائندہ ہیں، ان کی گرفتاری بالکل غیر ضروری تھی۔‘‘