1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوويت يونين کے زوال کا سبب، بہتر مغرب سے موازنہ بھی تھا

18 اگست 2011

بعض ماہرين کے مطابق ايٹمی اسلحے کے لحاظ سے تو سوويت يونين يقيناً مضبوط تھا ليکن اقتصادی لحاظ سے وہ کبھی بھی زيادہ آزادی اور بہتر معيشت والے مغرب اور امريکہ کا مقابلہ نہيں کر سکا۔

https://p.dw.com/p/12InB
يو کرائن ميں سوويت يونين سے عليحدگی پر ريفرنڈم۔ دسمبر 1991
يو کرائن ميں سوويت يونين سے عليحدگی پر ريفرنڈم۔ دسمبر 1991تصویر: AP

سوويت يونين کے زوال اور بالآخر خاتمے کے 20 سال بعد اس کے محرکات اور اسباب کے مختلف طرح سے جائزے ليے جا رہے ہيں۔ بعض ماہرين کا کہنا ہے کہ ايٹمی اسلحے کے لحاظ سے تو سوويت يونين يقيناً بہت طاقتورتھا ليکن اقتصادی ميدان ميں وہ کبھی بھی زيادہ آزادی اور بہتر معيشت والے امريکہ اور مغرب کا مقابلہ نہيں کرسکا۔ تاہم اُس نے نظرياتی طور پر ہميشہ مغرب سے اپنا موازنہ کيا اور يہ اُس کے گلے کا پھندا بن گيا۔

سن 1991 ميں سوويت يونين تيزی سے زوال کی طرف جا رہا تھا۔ صنعتی پيداوار کم ہوتی جا رہی تھی، بے روزگاری بڑھ رہی تھی اور تيزی سے بڑھتی ہوئی افراط زر کی شرح سے شہريوں کی پس انداز کی ہوئی رقوم کی قدرگھٹتی جا رہی تھی۔

جارجيا کا يوم آزادی
جارجيا کا يوم آزادیتصویر: picture alliance/dpa

اس کے ساتھ ہی قوميتی تنازعات ابھر رہے تھے۔ جارجيا اور آذربائيجان ميں فائرنگ کے واقعات ہو رہے تھے۔ سن 1990 ہی ميں ليتھوانيا اپنی آزادی کا اعلان کرنے والی پہلی سوويت رياست تھی۔ جنوری سن 1991 ميں ماسکو نے کے جی بی کے ايک خصوصی کمانڈو دستے کو ليتھوانيا کے دا رالحکومت ولنيئس روانہ کيا۔ وہاں ٹيلی وژن اسٹيشن پر دھاوا بولا گيا جس ميں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ليکن ليتھوانيا کوسوويت يونين ميں واپس لانے ميں کاميابی نہيں ہوئی۔ ميخائيل گورباچوف کی اُن کے ملک پر گرفت مسلسل ڈھيلی پڑ رہی تھی۔

آج وہ يہ کہتے ہيں کہ سوويت يونين کو ’’بچايا جا سکتا تھا اور بچايا جانا چاہيے تھا‘‘۔ اُس وقت وہ ايک دوسری طرح کا سوويت يونين بنانا چاہتے تھے جس ميں شامل جمہورياؤں يا رياستوں کو پہلے سے زيادہ خود مختاری دی جانا تھی۔ ايک ريفرنڈم ميں ’’يکساں حقوق والی رياستوں کی ايک نئی فيڈريشن‘‘ اور سوويت يونين کو برقرار رکھنے کے حق ميں 70 فيصد ووٹ ديے گئے۔ صدر گورباچوف 15 ميں سے صرف نو رياستوں کو اس بارے ميں مذاکرات ميں حصہ لينے پر آمادہ کر سکے۔ وہ ايک نيا رياستی معاہدہ طے کرانے ميں بھی کامياب ہو گئے۔ ليکن اس پر دستخط نہ ہوسکے۔ 20 اگست سن 1991 کی دستخطی تقريب سے ايک دن پہلے وزير دفاع، وزير داخلہ اور خفيہ سروس کے جی بی کے سربراہ پر مشتمل کٹر کميونسٹوں کے ايک گروپ نے بغاوت کردی اور ماسکو کی سڑکوں پر ٹينک نظر آنے لگے۔ گورباچوف نے کہا: ’’يہ محسوس کرنے کے بعد کہ وہ عام سياسی طريقوں سے کچھ حاصل نہيں کر سکتے، اُنہوں نے بغاوت کا فيصلہ کر ليا۔‘‘

ميخائيل گورباچوف، کميونسٹ پارٹی کانگريس، جولائی 1990
ميخائيل گورباچوف، کميونسٹ پارٹی کانگريس، جولائی 1990تصویر: The Gorbachev Foundation

ليکن بغاوت ناکام ہوگئی۔ تين دن بعد ہی ہنگامی حالت ختم کر ديی گئی۔ بغاوت کے دوران ہی ايسٹونيا نے سوويت يونين سے آزادی کا اعلان کرديا۔ اس کے بعد يو کرائن اور دوسری رياستوں نے بھی ايسا ہی کيا۔ گورباچوف واپس آ گئے اور انہوں نے رياستی معاہدے کو پھر ميز پر لانے کی ناکام کوشش کی۔ 26 دسمبر سن 1991 کو سوويت يونين کے خاتمے کا سرکاری اعلان کر ديا گيا۔ گورباچوف مستعفی ہو گئے۔ اب حکومت کميونزم کے مخالف نو منتخب صدر بورس ييلسن کے ہاتھ ميں آ گئی۔

رپورٹ: رومان گونچارينکو / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں