1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچی کو سز‍ا، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

11 اگست 2009

میانمار کی ایک عدالت نے اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کو مزید ڈیڑھ برس کی نظر بندی کی سزا سنائی ہے۔ اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کے شعبہ جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہم لوکاس کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/J7os
تمام تر عوامی احتجاج کے باوجود سوچی کو سزا سنا دی گئیتصویر: AP

آج اِس سے پہلے عدالت نے سوچی کو تین سال کی قیدِ بامشقت کی سزا سنائی لیکن پھر عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ فوجی حکومت کے کہنے پر سزا میں نرمی کی جا رہی ہے۔ گزرے بیس برسوں میں سے چَودہ برس قید یا نظر بند رہنے والی آنگ سان سوچی اِس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں تحریکِ جمہوریت کی علامت بن چکی ہیں۔ آج کے عدالتی فیصلے کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔


تبصرہ:

مبصرین کی متفقہ رائے کے مطابق اپنے آج کے فیصلے سے ینگون حکومت نے اِس امر کا اہتمام کر دیا ہے کہ آنگ سان سُوچی میانمار میں اگلے برس مجوزہ عام انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ سُوچی، کم از کم آئین کی رُو سے اُمیدوار کے طور پر تو اِن انتخابات میں شرکت نہ کر پاتیں تاہم نظر بند نہ ہونے کی صورت میں وہ ایک بھرپور انتخابی مہم ضرور چلا سکتی تھیں۔ سن 2010ء کے انتخابات، جن کا اعلان ینگون حکومت نے زبردست بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں کیا تھا، 1990ء کے بعد پہلے آزادانہ انتخابات ہوں گے۔ تب یعنی اُنیس برس پہلے آنگ سان سُوچی نے انتخابات جیت لئے تھے تاہم فوجی بغاوت ہو جانے کے باعث وہ برسرِ اقتدار نہ آ سکیں۔

Myanmar Aung San Suu Kyi Urteil Protest
فیصلے کا مقصد سوچی کو اگلے برس ہونے والے انتخابات سے دور رکھنا ہےتصویر: AP

چونسٹھ سالہ سُوچی کے خلاف عدالتی کارروائی کا واحد مقصد جمہوریت کے لئے سرگرم اِس خاتون رہنما کی ملکی سیاست میں واپسی کو روکنا تھا۔ میانمار میں فوج پر یہ بات واضح ہے کہ نوبل امن انعام یافتہ سُوچی کی شرکت والے آزادانہ انتخابات میں فتح ممکنہ طور پر اپوزیشن ہی کی ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ نیا مقدمہ سُوچی کی کئی برسوں کی نظر بندی ختم ہونے سے کچھ ہی پہلے قائم کیا گیا۔ اِس سلسلے میں اُن پر جو الزام عائد کیا گیا، وہ اُتنا ہی مضحکہ خیز تھا، جتنی کہ بعد ازاں مقدمے کی کارروائی۔ ایک امریکی شہری، جس کا ذہنی توازُن درست نہیں تھا اور جس کے خیال میں اُسے سُوچی تک کوئی خدائی پیغام پہنچانا تھا، اِس خاتون رہنما کے گھر تک پہنچنے اور یوں فوجی حکومت کی طرف سے عائد کسی بھی طرح کے بیرونی رابطوں کی پابندی کو توڑنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اِس طرح آخر کار فوجی حکومت کو وہ بہانہ ہاتھ آ گیا، جس کا اُسے مہینوں سے انتظار تھا۔ یہ بات بھی طے ہی تھی کہ عدالت سُوچی کو قصوروار قرار دے گی۔ سزا میں نرمی کرتے ہوئے اُسے نظر بندی میں بدلنا بھی ایک نمائشی اقدام تھا۔ مغربی دُنیا کے لئے یہ عدالتی فیصلہ ناقابلِ قبول ہے۔

عدالت کی طرف سے سُوچی کے گھر میں گھسنے والے چون سالہ امریکی باشندے جَون ژَیٹا کو سات سال کی قیدِ با مشقت کی سزا یہ واضح کرتی ہے کہ میانمار نے شمالی کوریا سے کافی کچھ سیکھا ہے۔ شمالی کوریا ہی کی طرح میانمار کی حکومت بھی مغربی دُنیا پر یہ بات واضح کر دینا چاہتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں کوئی ایسی مراعات دینے کے لئے تیار نہیں ہے، جن سے فوجی حکومت کا اقتدار خطرے سے دوچار ہو سکتا ہو۔ سن 2007ء میں بھی یہی کچھ ہوا تھا، جب فوجی حکومت نے بدھ راہبوں کی تحریک کو بری طرح سے کچل دیا تھا۔ 2008ء میں بھی یہی ہوا، جب سمندری طوفان کے بعد ینگون حکومت نےبین الاقوامی امدادی تنظیموں کو اراوادی ڈیلٹا جانے سے روک دیا تھا۔ تب ہزاروں انسان بلا جواز موت کے منہ میں چلے گئے اور اب گذشتہ چند ہفتوں سے واشنگٹن حکومت کو خدشہ ہے کہ ینگون کی فوجی قیادت شمالی کوریا کی مدد سے اپنی جوہری استعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق میانمار اگلے پانچ برسوں کے اندر اندر ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ اِنہی اطلاعات کے پیشِ نظر اب بھارت نے شمالی کوریا کے اُس جہاز کو آگے جانے سے روک دیا، جو میانمار جا رہا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اِن حالات میں کیا کیا جانا چاہیے؟ میانمار کے عوام اتنے غریب ہیں کہ اِس ملک کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مغربی دُنیا یہ اُمید بھی نہیں رکھ سکتی کہ ینگون حکومت کا قریبی ساتھی چین اِن فوجی حکمرانوں کو انسانی حقوق اور جمہوریت کی طرف لے جانے کی کوشش کرے گا۔ یہی امکان باقی رہ جاتا ہے کہ خطے کے ہمسایہ ممالک اِس ملک کی سیاسی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ مغربی دُنیا کے پاس سرِ دست اپنا احتجاج جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

تبصرہ : گراہم لوکاس / امجد علی

ادارت مقبول ملک