1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان الیکشن: مبصرین کی تنقید، اپوزیشن امیدوار خفا

18 اپریل 2010

افریقی ملک سوڈان میں گزشتہ 24 سالوں میں پہلے کثیر الجماعتی انتخابات کا انعقاد مکمل ہونے کے بعد اب نتائج کا انتظار ہے۔ انتخابی عمل پر غیر ملکی مبصرین کی آراء سامنے آنا شروع ہو گئیں ہیں جو تنقید سے بھری ہیں۔

https://p.dw.com/p/MzJH
سابق امریکی صدر کارٹر سوڈانی صدر کے ساتھ الیکشن سے قبلتصویر: AP

سوڈان میں اپوزیشن کے امیدوار اور مذہبی مفکر حسن ترابی نے انتخابی عمل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ترابی کے مطابق انتخابات میں انتہائی گھناؤنے انداز میں دھوکہ دہی کا عمل جاری رکھا گیا تھا۔ اسلامی پاپولر کانگریس پارٹی کے لیڈر نے انتخابی عمل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ترابی صدارتی امیدوار بھی تھے۔ ایک دوسری اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی نے بھی انتخابی عمل کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اس پارٹی کے حاتم السر بھی سوڈان صدر کے مقابلے پر صدارتی امیدوار تھے۔

Sudan Wahlen 2010
بیلٹ بکس سے ڈالے گئے ووٹ نکالے جا رہے ہیںتصویر: AP

صدارتی، پارلیمانی اور علاقائی الیکشن کے ابتدائی نتائج منگل سے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ناقدین کو یقین ہے کہ عمر البشیر بطور صدر کامیاب قرار دے دیئے جائیں گے اور اُن کی جماعت، نیشنل کانگریس پارٹی کو بھی بھاری کامیابی حاصل ہو گی۔

سوڈان میں تاریخی خیال کئے جانے انتخابات کی نگرانی کے لئے غیر ملکی مبصرین بھی خرطوم اور دوسرے شہروں میں موجود تھے۔ اِن میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی موجود تھے۔ اُن کے ادارے کارٹر سنٹر کے بے شمار کارکن الیکشن کو مانیٹر کر رہے تھے۔ انتخابات کے بعد سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے ادارے کی جانب سے ایک بیان سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں میڈیا کے لئے جاری کیا گیا۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ یہ امر یقینی تھا کہ اِن انتخابات میں بین الاقوامی معیار کو قائم رکھنا بہت مشکل ہوگا اور بہت سارے مقامات پر خامیوں کو محسوس کیا گیا۔ کارٹر سنٹر کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ بیلٹ بکس کو سربمہر کرنے کے مسئلے کے ساتھ ووٹروں کو لگائی جانے والی روشنائی بھی معیاری نہیں تھی۔ مجموعی طور پر انتخابی عمل ناقابل اعتماد اور شفافیت سے عاری تھا۔ اِس کے باوجود جمی کارٹر کے خیال میں عالمی اقوام کو اس الیکشن کے نتائج تسلیم کرنا ہی ہوں گے کیونکہ یہ سوڈان میں جمہوریت کی جانب اٹھنے والا ایک اہم قدم ہے۔

Sudan Wahlen Omar al-Bashir
سوڈانی صدر اپنا ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: AP

سوڈانی انتخابات پر نگاہ رکھنے والے یورپی یونین کے وفد کے سربراہ ویرانیکے ڈی کائزر کے بھی خیالات کارٹر سنٹر کے بیان جیسے ہیں۔ کائزر کا بھی یہی خیال ہے کہ انتخابات میں عالمی معیار کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یورپی یونین کے وفد میں ایک سو تیس افراد شامل تھے۔ یہ مبصرین پچیس یورپی ملکوں سے منتخب کئے گئے تھے۔ یورپی یونین نے انتخابات سے اپوزیشن کی بعض اہم جماعتوں کے بائیکاٹ کا بھی نوٹس لیا اور اُن کی عدم شرکت کی وجہ سے حکمران نیشنل کانگریس پارٹی کو الیکشن میں فائدہ پہنچا۔ یورپی یونین کے بیان میں انتخابی عمل میں نقل و حمل کے ذرائع کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ یونین کے مبصرین نے حکام کی جانبداری کو بھی واضح طور پرمحسوس کیا۔ کارٹر سنٹر کی طرح یونین نے بھی ان الیکشن کو سوڈان کے لئے انتہائی اہم قرار دیا اور ان کے انعقاد کو جمہوریت کی پہلی منزل قرار دیا۔ یورپی یونین کی وفد کی سربراہ کا بھی خیال تھا کہ بین الاقوامی برادری تمام تر خامیوں کے باوجود اِس الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لے گی۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں