1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سياسی پناہ حاصل کرنے کی انوکھی ترکيب

عاصم سليم7 اپریل 2016

ايک بائيس سالہ افغان لڑکے نے ويڈيو شيئرنگ ويب سائٹ يو ٹيوب کو بروئے کار لاتے ہوئے سياسی پناہ کی درخواست کے ليے لیتھوينيا کے صدر سے رجوع کيا اور ايسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کی کوشش کامياب بھی ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/1IRB8
تصویر: DW/D. Cupolo

افغانستان کے ایک مسيحی شہری عبدل باسر يوسوسی نے بتايا، ’’ميں نے سنا ہے کہ جرمنی کے پاس بڑا پيسہ ہے ليکن ميں تو لیتھوينيا جانا چاہتا ہوں کيونکہ ميں وہاں کی زبان جانتا ہوں۔‘‘ اس نے يہ بيان بالٹک رياست لیتھوينيا کے دارالحکومت ولنیئس آمد پر بدھ کے روز ديا۔ يوسوسی کے بقول وہ افغانستان کبھی بھی واپس نہيں جانا چاہتا اور بس يہی چاہتا ہے کہ وہ لیتھوينيا ميں مستقل قيام کر سکے۔

يوسوسی ماضی ميں افغانستان ميں تعينات لیتھوينيا کی افواج کے ليے مترجم کے طور پر کام کيا کرتا تھا۔ سن 2013 ميں وسطی افغان صوبے غور سے لیتھووينين دستوں کے انخلاء کے بعد اسے متعدد مرتبہ دھمکی آميز خطوط موصول ہوئے۔ اسی سبب اس نے تقريباً ساڑھے چھ ہزار ڈالر  خرچ کر نے کے علاوہ دو ماہ کا سفر طے کرتے ہوئے يونان پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔

گزشتہ ہفتے عبدل باسر يوسوسی لیتھوينين حکام کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب اس نے يو ٹيوب پر اپنی ايک ويڈيو جاری کی، جس ميں وہ صدر ڈاليا گريباؤسکائٹے سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔ اس نے اپنے پيغام ميں بس اتنا کہا، ’’ميرے پاس صدر گريباؤسکائٹے کے ليے ايک درخواست ہے، ميری مدد کيجيے۔ ميں اس وقت يونان ميں ہوں۔‘‘ يوسوسی کی يہ انوکھی ترکيب کارآمد ثابت ہوئی اور اس ہفتے منگل کے روز متعلقہ حکام نے اسے پانچ روزہ ويزا دے ديا تاکہ وہ وہاں جا کر  اپنی اہليہ اور اپنی دو سالہ بيٹی کے ليے سياسی پناہ کی درخواست دے سکے۔

يہ امر اہم ہے کہ اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی مہاجرين کی منتقلی کی طے شدہ اسکيم کے تحت لیتھوينيا آئندہ دو سالوں کے دوران 1,105 تارکين وطن کو پناہ فراہم کرنے کا وعدہ دے چکا ہے۔ شورش زدہ ممالک شام، عراق اور افغانستان کے علاوہ کئی شمالی افريقی اور ايشيائی ممالک سے گزشتہ برس ايک ملين سے زائد افراد نے پناہ کے ليے يورپی بر اعظم کا رخ کيا۔