1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سُپر جیٹ جلد ایک حقیقت

افسر اعوان18 مئی 2016

سڈنی سے لندن صرف دو گھنٹے کی پرواز، اس خواب کو حقیقت بنانے کے سلسلے میں ماہرین کو مزید ایک کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔ ماہرین نے آسٹریلوی صحرا میں ہائپر سونک ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Iq2t
تصویر: Reuters

ایک امریکی اور آسٹریلوی ملٹری ریسرچ ٹیم مشترکہ طور پر آسٹریلیا کے جنوبی حصے میں وومیرا کے مقام پر بنائی گئی دنیا کی سب سے بڑی زمینی ٹیسٹنگ رینج اور ناروے کی انڈویا راکٹ رینج پر اس جیٹ انجن کی آزمائش جاری رکھے ہوئے ہے، جو 10 مراحل پر مشتمل ہے۔

آسٹریلوی چیف سائنسٹسٹ ایلکس زیلنسکی کے مطابق، ’’یہ ایک گیم چینجنگ یا بڑی تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجی ہے... دنیا بھر میں فضائی سفر میں انقلاب برپا کر سکتی ہے اور خلا تک بھی مؤثر لاگت کے ساتھ رسائی فراہم کر سکتی ہے۔‘‘

سائسندانوں کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک ٹیکنالوجی کے ذریعے سڈنی سے لندن تک کی پرواز وقت کے حساب سے سُکڑ کر محض دو گھنٹے تک محدود ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ فاصلہ 17 ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ ہائپر سونک فلائٹ دراصل آواز کی رفتار سے بھی پانچ گُنا تیز رفتار سے سفر کرے گی۔ سائنسی اصطلاح میں اسے ماک فائیو کہا جاتا ہے۔

آسٹریلیا کی کوئینزلینڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے مائیکل اسمارٹ کے مطابق ہائپر سونک انٹرنیشنل فلائٹ ریسرچ ایکسپیریمنٹیشن (HIFiRE) پروگرام میں شریک سائنسدان ایک ایسے انجن کی تیاری پر کام کر رہے ہیں، جو ماک سیون کی رفتار سے پرواز کر سکے۔

ہائپر سونکس کے ماہر اسمارٹ کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک ولولہ انگیز وقت ہے... ہم ایک ہائپر سونک انجن کے ذریعے ماک سات کی رفتار سے پرواز کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس پروگرام میں ایرو اسپیس کی ایک بڑی امریکی کمپنی بوئنگ اور جرمن اسپیس ایجنسی DLR بھی شریک ہے۔

’’ہائپر سانک انجن خلا میں مصنوعی سیارے زمینی مدار تک پہنچانے کے لیے بھی نہایت کارآمد متبادل ثابت ہو سکتا ہے‘‘
’’ہائپر سانک انجن خلا میں مصنوعی سیارے زمینی مدار تک پہنچانے کے لیے بھی نہایت کارآمد متبادل ثابت ہو سکتا ہے‘‘تصویر: Reuters/US Air Force

اسمارٹ کےمطابق سکریم جیٹ دراصل ایک سپر سانک انجن ہے، جو فضا سے آکسیجن حاصل کر کے بطور ایندھن استعمال کرتا ہے، جس سے یہ نہ صرف ایندھن ساتھ لے جانے والے راکٹ انجنوں کی نسبت ہلکا ہے بلکہ تیز رفتار بھی ہے۔

اسمارٹ کے مطابق، ’’اس کا عملی استعمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نہ صرف طویل فاصلوں تک بہت تیز رفتاری سے سفر کر سکتا ہے بلکہ یہ خلا میں مصنوعی سیارے زمینی مدار تک پہنچانے کے لیے بھی نہایت کارآمد متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

آسٹریلوی ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق بدھ 18 مئی کو چھوڑا جانے والا یہ تجرباتی راکٹ 7.5 ماک کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے 278 کلومیٹر کی بلندی تک گیا۔ اس راکٹ انجن کا آئندہ تجربہ 2017ء میں شیڈول ہے، جس میں سکریم جیٹ انجن ایک بوسٹر راکٹ کے ذریعے فضا میں چھوڑا جائے گا، جس کے بعد یہ اپنے طور پر پرواز کرے گا۔

اس انجن کا پہلا تجربہ 2009ء میں کیا گیا تھا۔ تب توقع ظاہر کی گئی تھی کہ اس انجن پر کام 2018ء تک مکمل ہو جائے گا۔