1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپاہ صحابہ کے سربراہ قتل ، ملک گیر احتجاجی مظاہرے

17 اگست 2009

ممنوعہ تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری کے قتل کے بعد پر تشدد مظاہروں میں دو افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/JD1x
مقتول علامہ علی شیر حیدری کے آبائی شہر خیر پور میں صورتحال انتہائی کشیدہ بتائی جا رہی ہےتصویر: AP

کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اور تنظیم اہلسنت و الجماعت کے سرپرست اعلیٰ علامہ علی شیر حیدری کو ضلع خیرپور کے قریب نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ ان کے قتل کی اطلاع ملتے ہی خیرپور، سکھر، حیدرآباد اور کراچی میں ہنگامے پھوپ پڑے۔ اندرون سندھ بھی گاڑیوں پر پتھراؤ کیاگیا اور سڑکوں پر ٹائروں کو آگ لگائی گئی جبکہ کراچی میں منگل کی صبح سے شہر کے مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ، جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ جاری رہا۔

علاقہ کے سینئر پولیس آفیسر ڈاکٹر فاروق نے صحافیوں کو بتایا کہ صبح سویرے نامعلوم افراد نے ناگن چورنگی کے علاقے میں سڑکوں پرٹائروں کو آگ لگائی۔ ہوائی فائرنگ کی اور 3 گاڑیوں اور ایک پیٹرول پمپ کو نذرآتش کردیا۔ ان افراد نے فائر برگیڈ کی گاڑیوں پر بھی فائرنگ کی جس کے بعد پولیس اور نیم فوجی رینجرز کی بھاری نفری نے علاقہ کی ناکہ بندی کرکے مسجد اور مدرسہ کی تلاشی لی، جہاں سے اسلحہ اور گولیاں برآمد کرکے 11 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

Which side are you on?
مقتول مذہبی رہنما کی تدفین میں تقریبا پندرہ ہزارافراد نے شرکت کی اور اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئیتصویر: AP

ادھر دوسری جانب علامہ علی شیر حیدری کے آبائی علاقہ خیرپور میں سخت کشیدگی ہے ان کی ہلاکت کے سوگ میں پورے شہر میں کاروبار زندگی معطل ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر خیرپور پیر محمد شاہ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ علی شیر حیدری کا قتل زمین کے تنازعہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ بلاوجہ ان کی ہلاکت کے بعد ہونے والے ہنگاموں کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ علامہ علی شیر کے جنازے میں 15 ہزار کے قریب لوگ موجود ہیں جو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سپاہ صحابہ کو کالعدم قرار دیئے جانے اور مولانا اعظم طارق کے قتل کے بعد علامہ علی شیر حیدری نے تنظیم اہلسنت و الجماعت قائم کرکے کام شروع کیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں دونوں جانب کے سیکڑوں کارکن اور رہنما ہلاک ہوچکے ہیں۔

رمضان سے قبل سنی جماعت کے رہنما کے قتل کے بعد حکومت کو صوبہ بھر خصوصاً کراچی اور خیرپور میں مساجد اور امام بارگاہوں کی سیکورٹی بڑھانے کی امید کی جا رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے تمام دعوووں کے باوجود حفاظتی انتظامات اب بھی ناقص ہیں دونوں فرقوں کے رہنماؤں کو ہدف بناکر قتل کرنے کے واقعات معمول ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اب بھی مناسب اقدامات نہیں کئے تو ملک کے دیگر حصے بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں آ سکتے ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید ، کراچی

ادارت: عاطف بلوچ