1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپر برگ جرثومہ ’ایک ٹائم بم‘

14 ستمبر 2010

فرانسیسی طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت سے پیدا ہونے والے’سپربرگ جرثومے‘ سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/PBMC
تصویر: JCVI

پیر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بیکٹیریا طاقتور اینٹی بائٹکس ادویات سے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ فرانس کے Bicetre ہسپتال سے وابستہ ایک طبی ماہر Patrice Nordmann نے خبردار کیا ہے کہ سپر برگ جرثومے کے ممکنہ خطرے سے بچنے کے لئے عالمی سطح پر ایک جامع منصوبہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساتھ ہی ایسے تمام افراد کا طبی ٹیسٹ کروایا جائے، جو حال ہی میں ایسے ممالک سے علاج کروا کے واپس آئے ہیں، جہاں یہ جرثومہ پایا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے AFP کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ابھی اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس خطرناک جرثومے کے دنیا بھر میں پھیلنے کے کیا امکانات ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اگر مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے توکچھ مہینوں یا سالوں میں یہ جرثومہ دنیا بھر میں پھیل بھی سکتا ہے۔ نارڈمان نے اس جرثومے کو ایک ’ٹائم بم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ طبی ماہرین کو عالمی سطح پر اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے ابھی سے ہی تیار ہوجانا چاہئے۔

امریکی طبی حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس وقت امریکہ میں بھی تین افراد میںNDM1 نامی یہ جرثومہ پایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تینوں افراد علاج کے لئے بھارت گئے تھے اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ افراد وہیں سے یہ ساتھ لائے ہوں۔

Gesichtschirurgie in Jena
سستے علاج کے لئے کئی لوگ بھارت میں علاج کروانے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری طرف برطانوی طبی ماہر ٹموتھی والش نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ جس طرح لوگ سستے علاج کے لئے بھارت یا ایسے ممالک جا رہے ہیں، جہاں یہ جرثومہ پائے جانے کے شواہد ملے ہیں، تو مستقبل میں ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ بیکٹیریا دنیا بھر میں پھیل جائے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مہلک جرثومہ بھارت سے پھیلا ہے۔ پہلی مرتبہ سن 2007ء میں اس حوالے سے حقائق اس وقت سامنے آئے تھے، جب برطانوی طبی محقیقن نے ایک ایسے برطانوی شہری میں یہ خطرناک بیکٹیریا پایا تھا ،جو بھارت سے علاج کروا کے واپس آیا تھا۔

اس بیکٹیریا پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ زیادہ تر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے پھیل رہا ہے۔ اس تحقیق پر بھارتی طبی حلقوں نے فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس پر تحقیق شروع کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: عدنان اسحاق