1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکھ برادری، نانک کی تعلیمات اور بھارت اور پاکستان کے مناقشات

7 نومبر 2020

بھارت اور پاکستان کے درمیان حالات ان دنوں کشیدہ ہیں۔ ليکن کيا سکھ برادری اور اس کے نظريات دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہوئے قربتوں کا باعث بن سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3kzh1
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

پچھلے سال سکھ مذہب کے بانی گُرو نانک دیوجی کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر پاکستان میں بھارت کے سکھ زائرین کے ليے کرتار پور راہداری کھولنے کے مناظر جب ٹیلی وژن پر براہ راست نشر ہو رہے تھے، تو مجھے پنجاب سے دور جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی کی جاڑوں کی وہ راتیں یاد آ رہی تھیں، جب سونے سے قبل بستر میں جاتے ہی دادی ہم بچوں کو راولپنڈی، ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتار پور کی داستانیں سناکر سلاتی تھیں۔ یہ کہانیاں ہمارے ليے طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہوتی تھیں۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مجھے کبھی ان گوردوارں کے درشن کرنے کی سعادت نصیب ہو گی۔

سن 1947میں تقسیم کے وقت میرے دادا نے راولپنڈی سے اور نانا نے لالہ موسیٰ سے ہجرت کر کے نہ جانے کیوں مشرقی پنجاب اور دہلی کو چھوڑ کر بہار کے دور افتادہ علاقے جھارکھنڈ میں سکونت اختیار کی۔ بٹوارے کے وقت تقریباً دو ملین سکھ مغربی پنجاب میں رہتے تھے۔ اسی طرح مشرقی پنجاب میں بھی مسلمانوں کا تناسب تينتيس فیصد تھا، جو تقسیم کے بعد اب بمشکل 0.5 فیصد رہ گیا ہے۔ سکھوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی سیاسی پارٹیوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح لاکھوں کی تعداد میں سکھ اپنے گھر، کھیت کھلیان، جاگیریں اور کئی نسلوں کی اکٹھی کی گئی جائیدادوں کو راتوں رات چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ نہ صرف جائیدادیں چلی گئیں بلکہ اپنی تہذیب اور گرو نانک کے ذریعے عطا کی گئی انفرادیت بھی تار تار ہو گئی۔

تقسيم سے قبل برصغیر میں صدیوں قبل فسق و فجور سے لتھڑے ہوئے معاشرے میں جس مرد کامل نے توحید کی صدا بلند کرتے ہوئے ذات پات اور چھوا چھوت کے خلاف آواز اٹھائی، وہ بابا نانک تھے، جن کی جائے پیدائش لاہور کے قریب تلونڈی نام کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہے، جوکہ اب ننکانا صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے سے نکل کر بابا نے تيس سال تک دنيا کے دیگر ممالک کا سفر کیا اور اس دوران رزق کے ليے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ محنت کر کے رزق حلال کماؤ اور اپنی کمائی کو ضرورت مندوں میں بانٹو اور اس کائنات کے مالک کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھو۔ سنگت اور پنگت یعنی عبادت کرنا اور مل بانٹ کر کھانا، ان کی تعلیم کا محور ہے۔ اسی روایت کی بدولت دنیا میں موجود ہر گوردوارے سے کوئی بھوکا خالی پیٹ واپس نہیں جا سکتا۔ چاہے کشمیر میں آیا سیلاب ہو یا لاک ڈاؤن یا کورونا کی وبا کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی حالت زار ہو، گوردواروں کے لنگر ہمہ وقت انسانیت کی خدمت میں پیش پیش نظر آئے۔

دلی کے بنگلہ صاحب گوردوارے نے تو اس وبا کے دوران ہر روز ايک لاکھ افراد تک کھانا پہنچایا۔ یہ بس بابا نانک کی ہی دین ہے، جس نے اپنے پیروکاروں کو ضرورت مندوں کی خدمت کے ليے تیار کیا اور توہم پرستی میں الجھے ہوئے معاشرے کو حقیقت پسندی اختیار کرنے کی دعوت دی۔ جھارکھنڈ سے دہلی آنے اور بابا نانک کو پڑھنے کے بعد مجھے ان کے سفری راستوں پر چلنے کا خاصا اشتیاق تھا۔ میں ان کے نام کے ساتھ جڑی زیارتوں میں حاضری دینا چاہتی تھی تاکہ اس روحانیت کا تھوڑا بہت ادراک ہو، جس کی شبہہ ان کی تعلیمات میں درج ہے۔ بھارت میں مجھے ان تمام جگہوں پر جانے کا موقع ملا، جن کی مناسبت گورو نانک کے ساتھ تھی۔ مگر پاکستان جانے کی میری ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ تقسیم کی جو کہانیاں سن سن کر میں پروان چڑھی تھی، میری نگاہیں کسی مسلمان کو دیکھ کر ہی پھیر جاتی تھیں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہجرت کے وقت ایک مسلم پڑوسی نے میرے خاندان کو دھوکہ دیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایسی بے شمار کہانیاں دونوں طرف وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ دہلی میں صحافت کے کیریئر کے دوران بھی کبھی پاکستان جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مگر گرو نانک کو مزید جاننے کی تڑپ سن 2015 میں اس قدر حاوی ہوئی کہ ویز ا لے کر میں نئی دہلی سے لاہور جانے والی بس پر اپنی بہن، والدہ اور چند دیگر افراد خانہ کے ساتھ سوار ہو گئی۔ کئی افراد جن میں میرے شوہر بھی شامل تھے، مجھے آخر وقت تک پروگرام ملتوی کرنے کے ليے استدعا کرتے رہے۔

اس دورے کے دوران یہ سمجھ آیا کہ اگلے زمانے کے پیر و فقیر آخر سفر پر کیوں روانہ ہوتے تھے۔ اس سفر نے میرے ليے ایک نئی دنیا کے دروازے کھول ديے۔ نہ صرف مسلمانوں کے تئیں میرے شکوک و شبہات بلکہ پاکستان سے متعلق بھی میرے بہت سے پالے ہوئے نظریے ڈھیر ہو گئے۔ جس طرح اس دورے کے دروان خواص و عام نے ہمارے ساتھ سلوک کیا، اس نے برسوں سے پہنی میری تعصب کی عینک کو دور پھینک دیا۔ پنجاب کے انتہائی سرے پر اٹک ضلع میں حسن ابدال شہر میں گوردوارہ پنجہ صاحب میں دھیان لگاتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بابا نانک اور ان کے مسلم پیروکار بھائی مردانہ ایک گروہ میں کیرتن کرنے میں مصروف ہیں۔ عام لوگوں سے گفتگو کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان میں متعدد مسلمانوں کے ليے بابا نانک ایک پیر تھے، جنہوں نے لوگوں کو صحیح راہ دکھائی۔ بابا نانک نے اپنی مکمل زندگی یہ سمجھانے میں لگا دی تھی کہ ان کا پیغام انسانیت کے ليے ہے۔ ان کے پیروکار بھارت اور پاکستان میں اقلیت میں ہیں۔ مگر یہ شاید بابا نانک کی تعلیمات کے طفیل ہی ہے کہ سکھوں کو نہ صرف ان دو ممالک میں بلکہ پوری دنیا میں ایک قابل احترام قوم کا مقام حاصل ہے۔ شاید اسی وجہ سے دنیا میں جب بھی کبھی آفت آتی ہے، تو سکھ وہاں آن پہنچتے ہیں۔

’گرو نانک کے گردوارے میں عبادت کرنے کی خواہش پوری ہوگئی‘

گو کہ گرو نانک تلونڈی یعنی موجودہ ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے تھے لیکن انہوں نے کرتار پور کو ہی مستقل ٹھکانہ بنا ليا تھا۔ جب سن 1920 میں گوردوارا دربار صاحب سیلاب کی نذر ہوا، تو مغربی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کے دادا پٹیالہ کے مہاراجہ بھویندر سنگھ نے اس کی تعمیر نو کی۔ پنجاب کی تقسیم کے بعد دیگر سکھ زیارتوں کی طرح یہ بھی پاکستان کے حصے میں آئی اور کئی برسوں تک بھارت میں مقیم سکھوں کے ليے اپنے مرشد کی آخری آرام گاہ تک رسائی بند ہو گئی۔ 

گرو نانک پیدا تو ایک ہندو گھرانے میں ہوئے تھے لیکن وحدانیت کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ وہ کبیر اور بابا فرید شکر گنج کی طرح صوفیا کے تصورات اور عرفان سے بہت متاثر ہوئے۔ اسی ليے شاعر مشرق علامہ اقبال نے ان کے ليے کہا تھا۔ پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے، ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے۔ گرو گرنتھ صاحب میں جو رہنما اْصول بیان کیے گئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے رب کے۔ دوسرا اصول ”ونڈچکو" یعنی مل کے کھاؤ، تیسرا اْصول ذاتی مفاد اور نجی ملکیت کے بجائے گرمکھ یعنی گرو کی راہ میں ساری کائنات کی خدمت کرو۔ گرو نانک ذات پات اور رنگ و نسل کی تقسیم کے خلاف تھے اور سارے وحدانی مذاہب کی سچائی کو مانتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی تقسیم کے خلاف تھے۔ مگر بابا کے نزدیک روحانیت کا مطلب دنيا سے بالکل منہ موڑنا اور بھیک پر گزارہ کرنا نہیں تھا۔ کرتار پور میں گرو نانک اور ان کے چیلے یک کمیون کی صورت رہتے تھے جو مل جل کر کھیتی باڑی کرتے، وہ مل بیٹھ کر کھاتے پیتے اور سنگت کرتے تھے۔ وہ کسی طبقاتی اور مذہبی تفریق کو نہیں مانتے تھے اور بہت سادہ اور پاکیزہ زندگی گزارتے تھے۔

آج بھارت اور پاکستان کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے درمیان تو کئی بار جنگ جیسی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بابا نانک کی تعلیمات کوئی نہ کوئی راہ ضرور دکھائیں گی۔ دونوں ممالک کے درمیان سکھ قوم ایک پل کا کام کر کے عوامی بقائے باہم کو مہمیز دے کر حکمرانوں کو مجبور کروائیں کہ وہ دیرینہ معاملات کو خوش اسلوبی اور پر امن طور پر سلجھا کر جنوبی ایشیا کو مناقشوں کا یرغمال بنانے سے اجتناب کریں۔ دعا ہے کہ بابا نانک حکمرانوں کو اتنی سمجھ عطا کرے کہ کرتار پور کی راہ داری سبھی امور کو عوامی خواہشات کی بنیادوں پر حل کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو تاکہ ہم سب مل کر گائیں۔ چستی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سےمیرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔