1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سیاست اور جرائم کی پشت پناہی ساتھ نہیں چل سکتے‘

شکور رحیم، اسلام آباد25 اگست 2015

متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیوایم) کے اراکین پارلیمنٹ کے استعفوں کی واپسی کے معاملے پر حکومت اور ایم کیو ایم کے نمائندوں کے درمیان دوسرے روز جاری مذاکرات کو فریقین اچھی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GLMb
Anhänger von Atlaf Hussein protestieren gegen Imran Khan
تصویر: picture-alliance/dpa

منگل کی صبح حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندہ وفد کے درمیان اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس میں مذاکرات کیے گئے۔ ایم کیو ایم کے کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کے لئے منعقد کیے گئے ان مذاکرات کی پہلی نشست پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔ کھانے کے وقفے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما کنور نوید نے کہا کہ وہ حکومتی ٹیم کے ساتھ ہونے والے مذاکرت کی پیش رفت سے مطمئن ہیں۔

خیال رہے کہ حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان یہ مذاکرات ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے منگل کو کراچی کا دورہ کیا اور کور ہیڈ کواٹرز میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ انہوں نے کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم اور آرمی چیف کے کراچی آپریشن جاری رکھنے سے متعلق بیانات سے یہ بات عیاں ہے کہ اس بارے میں سول اور فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر ہے۔کراچی آپریشن کو ہر صورت میں جاری رکھنے کے واضح حکومتی اعلانات کے بعد حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان مذاکرات کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو گا؟ اس بارے میں"جنگ " گروپ سے وابستہ سینئیر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو یہ بات باور کرائی جارہی ہے کہ سیاست اور جرائم کی پشت پناہی ساتھ نہیں چل سکتے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایم کیو ایم کی یہ ڈیمانڈ سیاسی کے ساتھ ساتھ قانونی طور پر بھی جائز ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن میں کسی بھی امتیازی سلوک کے تاثر کو دور کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اور میری معلومات کے مطابق فوج کو بھی اس طرح کے کسی اقدام پر اعتراض نہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایم کیوا یم کا کراچی میں بہر حال ایک سیاسی مینڈیٹ موجود ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اپنے ووٹروں کے حقوق کی سیاسی جدوجہد جاری رکھے، جس میں کسی قسم کے تشدد کا عنصر نہ ہو۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان بھی شریک ہوئے تھے۔

ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کراچی میں جاری آپریشن پر ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کے لیے نگران کمیٹی کے قیام پر رضا مند ہوگئے ہیں جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے استعفوں پر نظرثانی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ایم کیو ایم کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین نے کراچی میں جاری آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بارہ اگست کو استعفے دے دیے تھے۔ تاہم قومی و سندھ کی صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے چئیرمین نے ایم کیو ایم کے اراکین کے استعفے ابھی تک قبول نہیں کیے۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) اسد منیر کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کو اچھی طرح سے اس بات کا ادراک ہے کہ اندرونی سلامتی کی صورتحال بہتر کیے بغیر وہ بیرونی خطرات کا مطالبہ نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا، ’’آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان دونوں کا اہم ترین مقصد اندرونی سلامتی کا حصول ہے۔ اس لئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو شہروں خصوصاﹰ کراچی تک پھیلایا گیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اگر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کا مکمل خاتمہ کیے بغیر آپریشن کو روک دیا جاتا ہے تو پھر اندرونی سلامتی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہو گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کچھ بیماریوں کا علاج کڑوی گولی ہوتی ہے، جو کھائے بغیر مرض ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر ملک میں امن درکار ہے تو پھر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔