1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیکولر دانشوروں کے خلاف حملے، بنگلہ دیش میں احتجاج

عابد حسین1 نومبر 2015

کل ہفتے کے روز بنگلہ دیشی دارالحکومت میں سيکولر ناشر فيصل عارفين ديپن کو نامعلوم حملہ آوروں نے ہلاک کر ديا تھا۔ آج ایسے حملوں کے خلاف ڈھاکا میں ٹیچرروں اور طلبا نے احتجاج کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gxql
اتوار کے روز ہونے والے احتجاج میں استاد، مصنفین، طلبا اور دانشور طبقہ بھی شامل تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/ A.M. Ahad

بنگلہ دیش میں آج اتوار کے روز ہونے والے احتجاج میں استاد، مصنفین، طلبا اور دانشور طبقہ بھی شامل تھا۔ ان لوگوں نے ڈھاکا یونیورسٹی میں جمع ہو کر حملوں کے خلاف اور حکومت کی جانب سے انتہا پسند مذہبی حلقوں کو نکیل ڈھالنے میں ناکامی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ڈھاکا یونیورسٹی کی ایک ٹیچر ثمینہ لطفہ نے احتجاج کرنے والے چند سو افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کٹر عقیدے کے مسلح افراد نے پہلے ادیبوں کو ٹارگٹ کیا، اب وہ ناشرین پر حملے کر رہے ہیں۔ لطفہ کے خیال میں مستقبل قریب میں ٹیچروں کو بھی ہلاک کرنا شروع کر دیا جائے گا۔ لطفہ نے مشورہ دیا کہ عوام گھروں کے اندر چھپ کر نہ بیٹھیں اور وہ باہر نکل کر احتجاج کا حصہ بنیں۔

اب تک بنگلہ دیش میں کم از کم چار لادین دانشوروں کو مختلف حملوں میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشی معاشرے میں بنیاد پرست مذہبی عناصر جگہ بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز کیے گئے مسلح حملوں کی ذمہ داری انصار الاسلام نامی عسکری گروپ نے قبول کی ہے۔ یہ گروپ بنگلہ دیش میں القاعدہ ان دی سب کانٹیننٹ (AQIS) کی ایک ذیلی شاخ خیال کی جاتی ہے۔

Bangladesch Blogger
ایک اشاعتی ادارے کے مالک احمد رشید ٹُلٹُل کو ہسپتال پہنچایا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/NurPhoto/Z. H. Chowdhury

انصار الاسلام نے الزام لگایا ہے کہ سیکولر اشاعتی اداروں کے مالکان ایسی کتب شائع کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے، جن میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد شامل ہوتا ہے۔ دوسری جانب ڈھاکا حکومت کا خیال ہے کہ کوئی بین الاقوامی گروہ اِن وارداتوں میں شامل نہیں بلکہ یہ ملکی مذہبی انتہا پسند ہیں جو حملے کرتے ہیں۔

ہفتہ اکتیس اکتوبر کو بنگلہ دیش کے اہم دانشور اور مصنف فیصل عارفین دیپن کو وسطی ڈھاکا میں واقع ان کے دفتر میں ہی ہلاک کر دیا گیا۔ فیصل کے والد ابوالقاسم فضل الحق ن کے مطابق حملہ آوروں نے ان کے بیٹے کا گلہ کاٹ دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُن کے بیٹے کا جرم تھا کہ اُس نے اویجیت رائے کی کتابیں شائع کی تھیں۔ سیکولر مصنف اور بلاگر اویجیت رائے کو بھی نامعلوم افراد نے رواں برس فروری میں ہلاک کر دیا تھا۔

گزشتہ روز نامعلوم مسلح افراد نے دو سیکولر بلاگرز اور ایک اور اشاعتی مرکز کے مالک پر بھی حملے کیے۔ حملوں میں یہ تينوں افراد زخمی ہوئے۔ حملہ آوروں نے ایک اشاعتی ادارے کے مالک احمد رشید ٹُلٹُل اور بلاگرز طارق رحیم اور رانا دیپم باسُو کو نشانہ بنايا۔ پولیس کا خیال ہے کہ تمام حملوں کا انداز ایک سا ہے اور تمام اندازے ایک کالعدم مقامی گروپ ’انصار اللہ بنگلہ ٹیم‘ کی جانب جاتے ہیں۔ پولیس کے مطابق القاعدہ اِن دی سب کاننٹیننٹ کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید