1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی آئی اے نے بلیک واٹر کا معاہدہ منسوخ کر دیا

13 دسمبر 2009

ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ امریکی خفیہ ادارے CIA نے اپنے مختلف آپریشنز میں امریکی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کا کردار انتہائی محدود کردیا گیا ہے، جو اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/L1C4
تصویر: AP GraphicsBank

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نجی سیکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر کے ملازمین اب امریکی خفیہ ادارے CIA کے مختلف مشن میں شرکت نہیں کریں گے۔ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان میں ایجنسی کے مشن میں اِن کوقطعی طور پر شریک نہیں کیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ بلیک واٹر سیکیورٹی ایجنسی کے ملازمین بغیر پائلٹ کے جہازوں پر بموں کو رکھنے میں معاونت کرتے تھے۔ یہی بغیر پائلٹ کے جہاز مبینہ طور پر افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اور طالبان انتہاپسندوں کو ٹارگٹ کرنے یا ڈرون حملوں میں استعمال کئے جاتے ہیں۔

اِس سیکیورٹی ایجنسی کے ملازمین کوسی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پانیٹا نے اِس سال کے ماہِ جون سے ایجنسی کے آپریشن میں اس نجی کمپنی کی شرکت کو محدود کرنا شروع کردیا تھا۔ اب کنٹریکٹ منسوخ کرنے کا ذکر بھی شروع ہو چکا ہے۔ بلیک واٹر کمپنی کے سربراہ ایرک پرنس نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے فیصلے کو دھوکہ قرار دیا ہے۔

وینیٹی افیئرز نامی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے بلیک واٹر کمپنی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنی کمپنی اور ملازمین کی بھاگ ڈور، کئی اہم مشنز کے دوران امریکی خفیہ ادارے کے حوالے کردی تھی۔ بلیک واٹر کمپنی اب Xe کہلاتی ہے۔ ایرک پرنس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے ضرور علیحدہ ہو گئے ہیں لیکن وہ بدستور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیرمین ہیں۔

امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے ترجمان George Little نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ ادارہ سیکیورٹی ایجنسی کے ساتھ جاری رکھے گئے معاہدے کی جانچ پڑتال میں مصروف ہے۔ ایجنسی کے ترجمان کے مطابق سردست بلیک واٹر کسی بھی مشن، آپریشن یا پرجیکٹ میں شریک نہیں ہے۔ یہ بیان امریکی ہفت روزے دی ٹائمز میں چھپنے والی ایک جائزہ رپورٹ کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ اُس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سیکیورٹی ایجنسی کے ملازمین ماضی میں امریکی خفیہ ادارے کے آپریشن میں باقاعدہ طور پر شریک ہوتے رہیں تھے۔ یہ مشن عراق اور افغانستان میں سرگرم مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف جاری رکھے گئے تھے۔

Leon-Panetta designierter CIA Chef
کوسی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پانیٹاتصویر: picture-alliance/ dpa

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ بلیک واٹر سیکیورٹی ایجنسی سن دو ہزار دو سے امریکی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مختلف مشنز میں شامل رہی ہے۔ اِسی کمپنی کے گارڈر کابل کے آریانا ہوٹل کے محافظ تھے۔ اسی طرح عراقی دارالحکومت بغداد میں بھی امریکی خفیہ ادارے کے دفتر کی حفاظت کی ذمہ داری بھی بلیک واٹر کو سونپی گئی تھی۔ دوسری جانب امریکی جریدے ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ عراق اور افغانستان میں CIA کے مختلف آپریشنز کے دوران بلیک واٹر کے کردار میں تبدیلی بھی واقع ہوتی رہی ہے۔ بلیک واٹر کے ملازمین سیکیورٹی معاملات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ کچھ حملوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں خاص طور پر ڈیلٹا فورس اور امریکی نیوی کے ہمراہ۔ ٹائمز نے یہ بھی بتایا ہے کہ سیکیورٹی کمپنی کے ملازمین کئی مطلوب افراد کی حراست کے علاوہ اُن کی ہلاکتوں میں بھی شریک تھی۔ عراق کے اندر Snatch & Grab یعنی چھینوں اور پکڑو نامی آپریشن میں اِس کے ملازمین نے فعال کردار ادا کیا۔ یہ آپریشن سن دو ہزار چار سے لیکر چھ تک جاری رہے۔ اِس دوران کمپنی کے ملازمین نے کئی مقامات پر مطلوب افراد کو ہلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

بلیک واٹر نامی سیکیورٹی ایجنسی کا نام عراق میں اُس کے مختلف معاملات میں شرکت کے بعد عالمی سطح پر سامنے آیا تھا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان میں بھی بلیک واٹر کی مبینہ موجودگی پر خاصی گرم بحث رہی۔ اِس سیکیورٹی ایجنسی کے ملازمین کی تعداد چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے۔ عراق میں فائرنگ کے ایک وقوعے میں بلیک واٹر کے ملازمین نےستمبر سن دو ہزار سات میں چودہ افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا جس پر عراقی حکومت نے کمپنی کے معاہدے کی تجدید نہیں کی تھی۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ