1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی اپوزیشن کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار علوش مستعفی

عاطف بلوچ30 مئی 2016

شامی اپوزیشن کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار محمد علوش اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول جنیوا امن مذاکرات کا تعطل کا شکار سلسلہ نہ تو ملک میں قیام امن ممکن بنا سکا ہے اور نہ ہی وہاں انسانی المیے کو ختم کر سکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Iwvg
Schweiz Syrien Friedensgespräche in Genf Mohammed Allusch
محمد علوش نے بین الاقوامی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں انسانی المیے کے خاتمے کے لیے کوئی خاص کوششیں نہیں کر سکیتصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ محمد علوش نے کہا کہ جنیوا امن مذاکرات کے تحت شام میں قیام امن کی کوششوں کی ناکامی کی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔

ایک اہم باغی گروہ جیش الاسلام کے رکن اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے اس سربراہ نے کہا کہ امن مذاکرات سے نہ تو امن کوششیں کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی ہزاروں قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکی ہے۔

اس مذاکراتی عمل کے تین ادوار کے بعد بھی شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی اس امن عمل کی سست روی پر پہلے بھی تحفظات کا اظہار کر چکی تھی۔

اتوار انتیس مئی کو رات گئے علوش نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ جنیوا مذاکرات کی ناکامی کے باعث شامی حکومت بڑی ’ہٹ دھرمی‘ کے ساتھ ملک بھر میں بمباری اور جارحیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

علوش نے بین الاقوامی برادری کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں انسانی المیے کے خاتمے کے لیے کوئی خاص کوششیں نہیں کر سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ تو شورش زدہ علاقوں میں محصور لوگوں کو نکالا جا سکا اور نہ ہی ان کے لیے مناسب امداد کو ممکن بنایا جا سکا ہے۔ علوش کے مطابق فائربندی کی ڈیل پر عملدرآمد میں ناکامی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

شامی حکومت اور شام میں سرگرم اعتدال پسند باغیوں کے مابین رواں برس فروری میں ایک جنگ بندی وقفے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ تاہم اس معاہدے پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف شامی باشندے بھی تاحال شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ محمد علوش نے کہا، ’’مذاکرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شامی باشندوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘

علوش نے اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اس کمیٹی سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شامی بحران کے حل کی کوششوں میں ناکامی کے باعث وہ مزید اس عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے۔ جنیوا امن مذاکرات کا آخری دور اپریل میں منعقد ہوا تھا تاہم شام میں مسلسل لڑائی کی وجہ سے اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی نے اس دور کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔

عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ شام کا بحران امن مذاکرات سے حل کر لیا جائے لیکن اس تناظر میں روس اور امریکا کے مابین اختلافات بھی ایک رکاوٹ قرار دیے جا رہے ہیں۔

سفارتی ذرائع کے مطابق اس مذاکراتی عمل کا آئندہ دور مئی ہی میں منعقد کیا جائے گا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی تاریخ طے نہیں کی جا سکی اور مئی کا مہینہ ختم ہونے میں بھی بمشکل دو دن باقی رہ گئے ہیں۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب اسٹیفان ڈے مستورا نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ آئندہ چند ہفتوں تک ان مذاکرات کے انعقاد کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

Syrische Luftwaffe bombardiert Aleppo Zivilisten sterben durch Fassbomben
شامی بحران کی وجہ سے ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images

سفارتی ذرائع کے مطابق اگر شام میں لڑائی کا سلسلہ نہیں تھمتا اور ضرورت مند شہریوں کو فوری امداد نہیں پہنچائی جاتی، تو شامی اپوزیشن آئندہ مذاکراتی عمل میں بھی شرکت نہیں کرے گی۔

اس پورے تنازعے میں شامی صدر بشار الاسد کا مستقبل بھی ایک اہم وجہ اختلاف ہے۔ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ اسد کو اقتدار سے الگ کرنے پر مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔ دوسری طرف امریکا، سعودی عرب اور شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ اسد کوصدارتی عہدہ چھوڑنا ہی ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید