1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی جنگ بندی معاہدہ: کسے دہشت گرد قرار دیا جائے؟

کشور مصطفیٰ31 دسمبر 2015

اقوام متحدہ کی طرف سے شام کی پانچ سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کی منصوبہ بندی کے مسودے میں شامل وضاحت طلب نکات میں سے ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ کن عسکریت پسند گروپوں کے خلاف جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے؟

https://p.dw.com/p/1HWR5
تصویر: Reuters

اقوام متحدہ کے سفارتکاروں کو شام کی جنگ کے خاتمے کی منصوبہ بندی میں سب سے زیادہ دشواری اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں پیش آ رہی ہے کہ ممکنہ فائر بندی کے بعد بھی کن عسکریت پسند گروپوں کو پسپا کرنے کے لیے اُن کے خلاف جنگ جاری رکھی جانی چاہیے۔

شام میں جنگ بندی کے حوالے سے تیار کردہ اقوام متحدہ کے پلان کا مسودہ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ہاتھ لگا ہے۔ اس مسودے میں آٹھ ایسے اہم اصُول شامل ہیں جو فائر بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام ممالک اور باغی گروپوں پر لاگو ہوں گے۔ نیز اس میں ایک ایسی فہرست بھی شامل ہے جس میں وہ تمام متنازعہ امور شامل ہیں جن پر گُفت و شنید ہونا ابھی باقی ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق شام کے اُن باغی گروپوں سے متعلق وضاحت سے ہے جن کے خلاف ممکنہ خانہ جنگی کے بعد بھی جنگ جاری رکھنے کی اجازت ہوگی۔

Syrien Al Nusra Kämpfer
شام میں سرگرم گروپ النصرہ کا جنگجوتصویر: Reuters/A. Abdullah

روئٹرز کے ہاتھ لگنے والی اس دستاویز کے مستند ہونے کے بارے میں شبہات دو سفارتکاروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات چیت کرتے ہوئے دور کر دیے ہیں۔ انہوں نے تاہم اس امر پر زور دیا ہے کہ یہ کاغذات ہنوز ایک ڈرافٹ یا مسودے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اصل میں اسے اقوام متحدہ نے تیار کیا ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس مسودے کی تبدیل شدہ شکل کا تبادلہ امریکا، اقوام متحدہ اور دیگر سفارتکاروں کے مابین ہوتا رہا ہے۔

دنیا کی بڑی طاقتوں اور شام کے تنازعے میں اہم کردار ادا کرنے والی علاقائی قوتوں، جن میں امریکا، روس اور ترکی بھی شامل ہیں کی طرف سے زور دیے جانے پر شام میں جنگ بندی کے تصور کی توثیق 18 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کی گئی تھی۔ جنگ بندی کے اس تصور کے تحت اس معاہدے میں اسلامک اسٹیٹ، جسے آئی ایس یا داعش بھی کہا جاتا ہے اور القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے والے النصرہ فرنٹ کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ شامل ہے۔

سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اس کا نتیجہ بے ترتیب، جزوی جنگ بندی ہوگی جس میں حکومت اور قابل قبول باغی فورسز ایک دوسرے پر فائرنگ کا سلسلہ تو بند کردیں گے لیکن یہ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں اور دیگر باغی گروپ، جن پر دہشت گرد ہونے کی چھاپ لگی ہوئی ہے، کا پیچھا کرتے رہیں گے۔

Syrien Idlib Einnahme Rebellen al-Nusra Front
ادلب پر النصرہ فرنٹ چھایا ہوا ہےتصویر: Reuters/K. Ashawi

سفارتکاروں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ النصرہ فرنٹ سے تعلق رکھنے والے جنگجو کسی ایک مخصوص جگہ کی بجائے شمالی شام میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن پر حملے کے نتیجے میں شامی شہریوں کے علاوہ فائر بندی معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔

ایسے گروپوں کی نشاندہی کی ذمہ داری اُردن کی حکومت کو سونپی گئی ہے۔ اس تمام صورتحال کے پیچیدہ ہونے کی ایک واضح نشاندہی عسکریت پسند گروپ جیش الاسلام کی طرف سے امن مذاکرات میں حصہ لینے پر رضامندی کا اظہار ہے تاہم اس کا لیڈر جمعے کو ایک فضائی حملے میں ہلاک ہو گیا ہے۔ باغیوں کے ذرائع کے مطابق یہ فضائی حملہ روسی جنگی طیارے نے کیا تھا۔

دریں اثناء امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جیش الاسلام کے لیڈر کی ہلاکت نے شام کی جنگ کے سیاسی حل کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکا کے اس مؤقف کو پیر کو امریکی وزیر خارجہ نے ٹیلی فون پر اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں ماسکو حکومت تک پہنچا دیا تھا۔