1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرين کو پناہ دينے کا معاملہ، کينيڈا بھی منقسم

عاصم سليم18 نومبر 2015

پچھلے دنوں تک کينيڈا پچيس ہزار شامی تارکين وطن کو سياسی پناہ فراہم کرنے کے سلسلے ميں کافی پُر عزم نظر آ رہا تھا تاہم گزشتہ ہفتے پيرس ميں دہشت گردانہ حملوں کے تناظر ميں کينيڈا بھی اب اس معاملے پر منقسم ہے۔

https://p.dw.com/p/1H7fM
تصویر: Reuters/Ch. Helgren

کينيڈا ميں سياسی پناہ کی درخواستوں پر تيز کارروائی کے حق ميں اور اس کی مخالفت ميں آن لائن پيٹيشنز زور پکڑ رہی ہيں۔ ايک روز قبل تک تقريباً پينتاليس ہزار کينيڈين شہری اس کے حق ميں تھے جبکہ ستر ہزار مخالف تھے۔ وزير اعظم جسٹن ٹرُوڈو نے ايپک اجلاس ميں شرکت کے ليے فلپائن جاتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتايا کہ وہ پچيس ہزار مہاجرين کو پناہ فراہم کرنے کے ليے ممکنہ اقدامات اٹھائيں گے تاہم داخلی سطح پر اب اس سلسلے ميں انہيں تنقيد کا سامنا ہے۔

ٹرُوڈو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سرسری طور پر پچيس ہزار شامی مہاجرين کو کينيڈا ميں سياسی پناہ فراہم کرنے کا کہا تھا۔ قريب دو ہفتے قبل وزارت عظمٰی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے متعلقہ وزارتوں کو اس سلسلے ميں کارروائی کرنے کی ہدايات جاری کر دی تھيں۔ تاہم پيرس حملوں کے جائے وقوعہ سے ايک شامی پاسپورٹ برآمد ہونے کے بعد نہ صرف يورپ بلکہ شمالی امريکہ ميں بھی اس حوالے سے شکوک و شبہات بڑھ گئے ہيں کہ دہشت گرد بھی مہاجرين کے گروپوں ميں چھپ کر مختلف مقامات تک پہنچ سکتے ہيں اور بعد ميں کارروائياں کر سکتے ہيں۔

امريکا ميں درجنوں رياستی گورنرز کی جانب سے شامی پناہ گزينوں کی وہاں منتقلی کے منصوبوں کی مخالفت سامنے آنے کے بعد کينيڈا کے ايک صوبے کے اعلٰی اہلکار بريڈ وال نے بھی اپنے ملک کے وزير اعظم ٹُروڈو کے نام ايک خط ميں اُن پر زور ديا ہے کہ وہ اپنے منصوبے پر دوبارہ غور کريں۔ انہوں نے لکھا، ’’اگر سياسی پناہ پر تيز کارروائی کے نتيجے ميں ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کی خواہش کے حامل کچھ لوگ بھی يہاں آ گئے، تو اس کے نتائج کافی منفی ہو سکتے ہيں۔‘‘ دوسری جانب کيوبک کے پريميئر فليپ کوئی لارڈ نے سکيورٹی خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’مہاجرين متاثرين ہيں، دہشت گرد نہيں۔‘‘

ٹرُوڈو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پچيس ہزار شامی مہاجرين کو کينيڈا ميں سياسی پناہ فراہم کرنے کا کہا تھا
ٹرُوڈو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پچيس ہزار شامی مہاجرين کو کينيڈا ميں سياسی پناہ فراہم کرنے کا کہا تھاتصویر: Reuters/C. Wattie

يونيورسٹی آف اوٹاوا کے ايک پروفيسر اور مشرق وسطٰی و عالمی امور کے ايک ماہر Jabeur Fathally نے کہا کہ پناہ گزينوں کو کينيڈا کی مدد کی ضرورت ہے تاہم انہوں نے اس عمل ميں جلد بازی سے خبردار کيا۔ انہوں نے کہا، ’’درخواست دہندگان کے ليے کچھ ماہ کی تاخير کوئی بڑا فرق نہيں لائے گی۔‘‘

يہ امر اہم ہے کہ اندازوں کے مطابق قريب ايک سو کينيڈين نوجوان جہاديوں کی صفوں ميں شرکت کے ليے شام جا چکے ہيں۔ گزشتہ برس کينيڈا کی پارليمان ميں دھاوا بولنے اور ايک فوجی کو ہلاک کر دينے والا حملہ آور لڑائی ميں حصہ لينے بيرون ملک جانا چاہتا تھا تاہم پاسپورٹ نہ ملنے کے سبب اس نے وہ کارروائی کی تھی۔