1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی پناہ گزين انسانی اسمگلروں کے رحم و کرم پر کيوں؟

عاصم سليم23 فروری 2016

ترکی نے حال ہی ميں شام سے ملنے والی سرحد بند کر دی ہے، جس سبب ترکی پہنچنے کے خواہاں ہزارہا شامی پناہ گزين پھنس گئے ہيں۔ ايسے ميں يہ تارکين وطن انسانی اسمگلروں کے رحم و کرم پر ہيں۔

https://p.dw.com/p/1I0ZP
تصویر: DW/D. Cupolo

بم دھماکوں اور دو طرفہ فائرنگ کے درميان سے ہوتے ہوئے تقريباً پندرہ گھنٹوں کا سفر طے کر کے شامی پناہ گزينوں کا ايک گروپ ترک سرحد کے قريب واقع ايک ديہات تک پہنچا ہے۔ انقرہ نے حال ہی ميں شام سے ملنے والی سرحد بند کر دی ہے تاہم يہ تارکين وطن کا گروپ ترکی جانے کی کوشش میں ہے۔ اسی کوشش کی تکمیل کے لیے انسانوں کے اسمگلروں کی خدمات حاصل کر کے ترک شہر کِلِس پہنچنے والی فاطمہ الاحمد بتاتی ہے، ’’انسانی اسمگلر بے رحم و پر تشدد ہوتے ہيں اور انہيں صرف پيسے کی فکر ہوتی ہے۔ وہ ہميں جانوروں کی طرح دھکيلتے ہيں۔ جو عورتيں زيادہ تيز نہيں چلتيں، انہيں مارتے ہيں، چاہے ان کے ہاتھوں ميں چھوٹے بچے ہوں۔‘‘ ستائيس سالہ الاحمد نے حلب سے کِلِس تک کے کئی گھنٹوں پر مشتمل اپنے سفر کی روداد کی تفصیلات خبر رساں ادارے اے ايف پیسے بیان کی ہیں۔

Türkei Grenze Syrien Kilis Flüchtlinge UNHCR
تصویر: DW/A. Deeb

شام کے ساتھ ملنے والی سرحد بند کرنے کے حاليہ ترک اقدام کے سبب وہاں سرگرم انسانوں کے اسمگلروں کی آمدنی دن دوگنا سے بھی بڑھ گئی ہے۔ اب یہ اسمگلر شامی تارکين وطن کو غير قانونی انداز ميں ترکی تک پہنچانے کے ليے بھاری رقوم طلب کرتے ہيں۔نيوز ايجنسی اے ايف پی کی رپورٹوں کے مطابق شام سے انسانی اسمگلر غير قانونی انداز ميں ترکی تک پہنچنے کی قيمت ايک ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے اور کبھی کبھار ايسا بھی ہوتا ہے کہ فرار ہونے کی کوشش ناکام ہو جائے۔

فاطمہ الاحمد نے بیان کیا کہ وہ اپنے دو سالہ بيٹے کے ہمراہ باڑ کے ايک کٹے ہوئے حصے سے نکل کر ترکی میں داخل ہوئی۔ اس نے حلب کے نواحی علاقے سخور سے فرار ہونے کا فيصلہ پچھلے ماہ اپنے خاوند کی ايک بم دھماکے ميں ہلاکت کے بعد کيا۔ شام سے تعلق رکھنے والی اس تارک وطن نے بتايا کہ روس کی جانب سے فضائی حملے شروع کيے جانے کے بعد سے ايسے افراد کی تعداد ميں بہت اضافہ ہو گيا ہے، جو اس طرح ترکی پہنچنا چاہتے ہيں۔

پينتيس سالہ يازان احمد اپنے والدين کا منتظر ہے، جو شامی شہر تل رفعات ميں گزشتہ ہفتے سے پھنسے ہوئے ہيں۔ اس شہر پر پچھلے ہفتے کردوں کی مليشيا نے قبضہ کر ليا تھا۔ احمد بتاتا ہے، ’’وہ سرحد پار ايک کيمپ ميں ہيں۔ گزشتہ رات ميرے بھائی نے اسمگلروں کو کچھ رقم دی تاکہ وہ ہمارے والدين کو ترکی پہنچا سکيں ليکن يہ کوشش ناکام ہو گئی کیونکہ ترک افواج نے اچانک فائرنگ شروع کر دی تھی۔‘‘

شام ميں قريب پانچ برس سے خانہ جنگی جاری ہے اور اس دوران حلب اور ديگر شہروں ميں پھنس جانے والے افراد قيديوں کی طرح زندگياں گزار رہے ہيں۔