1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی پناہ گزين جرمنی ميں کس طرح زندگی گزار رہے ہيں؟

عاصم سليم / Janine Albrecht8 مئی 2016

قريب تين برس قبل جرمنی نے ہزارہا شامی باشندوں کو ’کوٹہ مہاجرين‘ کے تحت جرمنی ميں قيام کی اجازت دی تھی۔ انہيں نہ تو سياسی پناہ کی درخواست دينی پڑی اور نہ ہی ملازمت کے ليے انتظار کرنا پڑا۔ آج يہ مہاجرين کيا کر رہے ہيں؟

https://p.dw.com/p/1Ijxo
تصویر: DW/J. Albrecht

ذکيہ بشارہ نے اکہتر سال کی عمر ميں اپنے خاوند اور بيٹے کے ساتھ اپنے آبائی ملک شام کو چھوڑا تھا۔ وہ وہاں جاری خانہ جنگی سے فرار ہو کر دو برس قبل اپنی بيٹی کے پاس جرمنی آ گئی تھيں۔ آج کل وہ جرمن شہر کيل ميں رہائش پذير ہيں۔ ان کی بيٹی عروہ بشارہ کی عمر پينتيس برس ہے۔ وہ بھی شام ميں رہتی تھی تاہم ايک روز ملازمت کے ليے جاتے ہوئے اسلامک اسٹيٹ کے شدت پسندوں نے اس پر گولی چلائی۔ اس دن کے بعد سے عروہ خوف کی زندگی بسر کرنے لگی اور ہر وقت بس اس سوچ ميں پڑی رہتی کہ اگر داعش نے اس کے آبائی شہر پر قبضہ کر ليا، تو اس کا کيا ہو گا۔

پھر عروہ فرار ہو اپنے کئی ديگر ہم وطنوں کی طرح لبنان چلی گئی۔ وہاں اس نے ايک برس تک قيام کيا، جس دوران تعليم يافتہ ہونے کی وجہ سے وہ ملازمت بھی کيا کرتی تھی۔ تاہم اس کے بقول بيروت ميں اس کے معذور بھائی و والدين کو رہنے کی اجازت نہ تھی۔ انہی چيزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عروہ نے اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين سے رابطہ کيا اور ايجنسی کی مقامی شاخ ميں جرمنی ميں ’کوٹہ مہاجرين‘ کے طور پر رہنے کے ليے درخواست دے ڈالی۔ پھر نومبر 2014ء ميں جرمن حکومت نے ’کوٹہ مہاجرين‘ کی اس اسکيم کے تحت پانچ ہزار شامی مہاجرين کو جرمنی ميں مستقل قيام کی اجازت دی اور کامياب درخواست دہنگان ميں عروہ بشارہ کا نام بھی شامل تھا۔

جرمنی ميں عروہ بشارہ کی نئی زندگی شمالی شہر کيل سے شروع ہوئی۔ تاہم وہ اپنے اہل خانہ کو بھی جرمنی لانا چاہتی تھی۔ کيل ميں ورکرز ويلفيئر ايسوسی ايشن سے منسلک مہاجرين کو مشاورت فراہم کرنے والی گونے توران بتاتے ہيں کہ اکثريتی مہاجرين جرمنی پہنچنے کے بعد سب سے پہلے اپنے اہل خانہ کو بھی يہاں بلانے کے خواہشمند ہوتے ہيں۔

عروہ بشارہ نے ايک برس ايک لبنانی مہاجر کيمپ ميں گزارا
عروہ بشارہ نے ايک برس ايک لبنانی مہاجر کيمپ ميں گزاراتصویر: picture-alliance/dpa/T. Rassloff

عروہ بتاتی ہے کہ اس نے جرمن زبان کے ليے باقاعدہ کلاسيں تو سرے سے ہی نہيں ليں۔ اس نے ٹيلی وژن ديکھ کر اور دوستوں سے بات چيت کر کے زبان سيکھی اور حال ہی ميں کہيں جا کر ’بی ون‘ کا امتحان پاس کيا۔ اب وہ ٹوٹی پھوٹی جرمن بول ليتی ہے۔ اس کے برعکس اس کی والدہ تو جرمن زبان بہت ہی کم بولتی ہيں۔ وہ بس سامان خريدتے وقت چند ايک الفاظ شايد بول ليں ورنہ زيادہ تر بات چيت عربی زبان ميں ہی کرتی ہيں۔

گونے توران کے بقول انضمام نسل در نسل آہستہ آہستہ نظر آتا ہے اور اسی ليے ان کی اولين ترجيح يہی ہوتی ہے کہ بچوں اور کم عمر افراد کو زبان سکھائی جائے۔ وہ بتاتی ہيں کہ عروہ بشارہ ايک مضبوط خاتون ہے۔ اس نے شام ميں وکالت کی پڑھائی مکمل کی تھی اور جرمنی ميں بھی اسی شعبے ميں کام کرنا چاہتی ہے۔ تاہم وہ يہ بھی جانتی ہے کہ جرمنی جيسے ملک ميں يہ ذرا مشکل کام ہے۔ عروہ عنقريب اپنی زبان بہتر کرنے کے ليے ايک خصوصی کورس کرنے والی ہے۔ اسی دوران گونے توران نے اسے اپنی ایسوسی ایشن میں بطور مترجم کے کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

آج خواہ سست رفتار سے ہی لیکن عروہ بشارہ کی زندگی آگے بڑھ رہی ہے اور وہ مطمئن ہے۔ اس کے اپنے مستقبل کے بارے ميں کچھ ارادے ہيں۔ ليکن اس کی ماں ذکيہ بشارہ اب بھی اپنے آبائی ملک شام واپس جانے کی شدید خواہش دل میں رکھتی ہے۔