1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی کرد ملیشیا دیرالزور کے مشرقی حصے پر قابض

عاطف توقیر
4 دسمبر 2017

شامی کرد ملیشیا YPG نے دیرالزور کے مشرقی حصے سے شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو پسپا کرنے اور علاقے پر مکمل قبضے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ohrB
Syrien YPG Kämpfer in Qamishli
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

کرد ملیشیا کے مطابق دیرالزور کا مشرقی حصے اب اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں سے مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اس پیش قدمی میں YPG کو امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کے علاوہ روسی فضائی مدد بھی حاصل رہی۔

کرکوک میں عراقی اور کرد افواج کے درمیان جنگ کا خطرہ

داعش کو جلد الرقہ سے باہر دھکیل دیا جائے گا، کرد ملیشیا

موصل کی بازیابی سے کیا عراق میں قیام امن ہو جائے گا؟

یہ کرد ملیشیا گروپ امریکی حمایت یافتہ ہے اور شامی ڈیموکریٹک فورسز کے اتحاد میں شامل ہے، جس میں کردوں کے علاوہ شامی عرب جنگجو بھی شامل ہیں۔ سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے عراقی سرحد کے قریب واقع شامی صوبے دیرالزور کے خلاف بڑا آپریشن شروع کیا تھا، تاکہ یہ علاقہ داعش کے جہادیوں سے چھینا جا سکے۔ یہ فورسز اب دریائے فرات کے مشرقی حصے پر قابض ہو چکی ہیں جب کہ دریا کے مغربی حصے پر پہلے ہی شام کی حکومتی فورسز کا قبضہ ہے۔

وائے پی جے، جسے سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا سب سے مضبوط عنصر قرار دیا جاتا ہے، نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ عرب قبائل کی مدد سے اسلامک اسٹیٹ کو مکمل شکست سے دوچار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد اور روسی طیاروں نے فضائی اور لاجسٹک مدد مہیا کی، جس کی وجہ سے داعش کے جگجوؤں کو پسپائی پر مجبور کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وائے پی جے اس طرز کی مدد اور معاونت میں مزید اضافے کا خواہش مند ہے، تاکہ جنگی طیاروں کے ذریعے فضائی تعاون کو یقینی بنایا جائے۔

کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟

شام میں وائے پی جے نے اس فتح کا اعلان ایک فوجی اڈے پر روسی مندوب کی موجودگی میں کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ روسی اور امریکی اتحادی طیاروں نے مل کر شام میں کسی عسکری سرگرمی میں حصہ لیا ہے۔

رواں ہفتے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس نے کہا تھا کہ داعش کے خلاف جنگ اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور انہیں امید ہے کہ اب توجہ شامی کرد جنگجوؤں کو مسلح کرنے سے زیادہ داعش کے زیرقبضہ علاقے کو خالی کرانے پر مرکوز رکھی جائے گی۔