1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام امن ڈیل کے نفاذ سے قبل ہی ناکامی کا خطرہ

عاطف بلوچ13 فروری 2016

شام میں قیام امن کی خاطر طے پانے والی ایک ڈیل ابھی نافذ العمل نہیں ہوئی ہے لیکن اس کی ناکامی کا خطرہ پہلے ہی پیدا ہو گیا ہے۔ روسی جیٹ طیاروں کی کارروائی جاری ہے جبکہ سعودی عرب نے کہہ دیا ہے کہ اسد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Huq0
München Sicherheitskonferenz - Dmitry Medwedew
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شام کے بحران کو مرکزی اہمیت حاصل ہےتصویر: Reuters/M. Dalder

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد مستقبل میں صدر نہیں رہیں گے اور روسی جنگی طیاروں کی بمباری انہیں اقتدار میں رہنے میں مدد نہیں دے گی۔ جرمن اخبار ’ذود ڈوئچے ساٹنگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دہرایا کہ اگر اتحادی فورسز شام میں داعش کے خلاف خصوصی فورسز تعینات کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو ریاض حکومت ان کے ساتھ ہو گی۔

الجبیر کے مطابق جب تک صدر اسد اقتدار میں ہیں، تب تک داعش کو شکست دینا مشکل ہو گا۔ میونخ میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’شام میں بشار الاسد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ شاید تین ماہ لگیں، چھ ماہ لگیں یا تین سال، لیکن اسد مستقبل میں شام کے صدر نہیں رہیں گے۔‘‘

الجبیر نے کہا کہ شامی صدر نے اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر متعدد ممالک سے مدد مانگی تھی، جن میں پاکستان بھی شامل تھا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ سعودی وزیر کے مطابق اب صرف روسی جنگی طیاروں کی تباہ کاریوں سے وہ اپنے اقتدار کو وسعت نہیں دے سکیں گے۔ انہوں نے اس تناظر میں ماسکو حکومت کے کردار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

بشار الاسد نے جمعے کے دن اے ایف پی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ملک میں فعال ’دہشت گردوں‘ کے خلاف جنگ کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ سلسلہ طویل ہو سکتا ہے لیکن آخر کار وہ ملک کو اپنے کنٹرول میں کر لیں گے۔ انہوں نے اس تناظر میں مذاکراتی عمل میں شرکت کا عندیہ بھی دیا تھا۔

تاہم سعودی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ شام میں فعال انتہا پسند گروہ داعش کو اس وقت تک شکست نہیں دی جا سکتی، جب تک بشار الاسد صدر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ شام میں جہادیوں کے خلاف زمینی کارروائی زیر غور ہے اور اگر اتحادی فورسز اس مقصد کے لیے تیار ہو جاتی ہیں تو ریاض حکومت بھی اس ضمن میں بھرپور معاونت فراہم کرے گی۔

نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے، روسی وزیر اعظم

دوسری طرف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے کہ شامی خانہ جنگی کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔انہوں نے شامی صدر بشار الاسد کے جنگی عزائم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر اسد سمجھتے ہیں کہ شامی خانہ جنگی کا عسکری حل موجود ہے تو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ ٹونر کے مطابق اگر یہ جنگ جاری رہی تو مزید خون خرابہ ہو گا۔

Syrien Neue Kämpfe in Damascus NEU
حلب میں دمشق فورسز کی تازہ کارروائی کی وجہ سے وہاں ایک نئی تباہی دیکھی جا رہی ہےتصویر: picture alliance/abaca/AA

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شریک امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام سے متعلق امن عمل ناکام ہوتا ہے، تو اس تنازعے میں مزید غیر ملکی دستے مداخلت پر مجبور ہو جائیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ روس اور ایران کو اس بحران کے خاتمے کے لیے کیے گئے فيصلوں پر عمل کرنا چاہیے۔ تاہم روسی وزیر اعظم دمتری میدویدف نے کہا ہے کہ شام میں زمینی کارروائی کا کہہ کر کسی کو ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہفتے کے دن میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں میدیدوف نے کہا کہ شام کی صورت حال میں بہتری صرف اسی صورت میں آئے گی، جب امریکا اور روس کے مابین باقاعدہ رابطہ کاری شروع ہو گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ شام میں روسی عسکری مداخلت قومی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔

روسی وزیر اعظم نے ایسے الزامات کو بھی مسترد کر دیا کہ جہادیوں کے خلاف فضائی حملوں کی وجہ سے شہری مارے جا رہے ہیں یا یہ تنازعہ مزید بگڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماسکو حکومت ان جہادیوں کو روس میں داخل ہونے سے روکنا چاہتی ہے۔ مشرقی یورپی ممالک میں نیٹو کی عسکری سرگرمیوں میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ روس اور مغرب ’ایک نئی سرد جنگ‘ میں داخل ہو گئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں