1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام ميں بغاوت، ديہی آبادی تک محدود

10 مئی 2011

شام ميں پچھلے کئی ہفتوں سے مظاہرے جاری ہيں، جن کو حکومت سختی سے کچل رہی ہے۔ ليکن صورتحال بہت غير واضح ہے کيونکہ شامی حکومت ملک ميں ہونے والے احتجاج کے بارے ميں غير جانبدارانہ رپورٹنگ کی راہ روک رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/11Cyf
شام کے شہر بانياس ميں مظاہرہ، موبائل فون سے لی گئی تصوير
شام کے شہر بانياس ميں مظاہرہ، موبائل فون سے لی گئی تصويرتصویر: dapd

اس طرح قياس آرائيوں کے ليے بہت وسيع ميدان موجود ہے۔ عرب ٹيلی وژن چينلز جو خبريں نشر کر رہے ہيں، وہ اکثر شام کے بارے ميں معلومات حاصل کرنے کا واحد ذريعہ ہوتی ہيں۔ ان نشريات ميں مظاہرين پر فائرنگ صاف طور پر سنی جا سکتی ہے۔

شامی صدر بشار الاسد اصلاحات متعارف کرانے اور گڑبڑ جلد ختم ہونے کے وعدے کر رہے ہيں، جبکہ انسانی حقوق کے حاميوں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ شام ميں کئی ہفتوں سے جاری احتجاجات ميں اب تک 600 سے لے کر 800 تک افراد ہلاک ہو چکے ہيں اور 8000 کو گرفتار کر ليا گيا ہے۔ ان اطلاعات کی تصديق تقريباً ناممکن ہے، نہ تو سرکاری ٹيلی وژن اور نہ ہی اپوزيشن کے ذرائع کی مدد سے، جو اکثر خبريں اور تصاوير غير ممالک سے حاصل کر کے اپنے نيٹ ورک پر شائع کرتی ہے۔ شام سے لبنانی دارالحکومت بيروت فرار ہونے والے طالبعلم رامی نخلہ نے کہا: ’’ميرا مقصد شام کی تاريکی پرروشنی ڈالنا ہے کيونکہ ہم جانتے ہيں کہ وہاں کی حکومت بد ترين جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔‘‘

حمص ميں مظاہرے کی موبائل فون سے لی گئی تصوير
حمص ميں مظاہرے کی موبائل فون سے لی گئی تصويرتصویر: AP

تاہم موبائل فون سے لی جانے والی، عموماً غير واضح تصاوير اور سيٹيلائٹ رابطے پر حالات سے کسی حد تک واقف افراد سے انٹرويو ليے جانے کے باوجود شام کی داخلی اور مظاہروں کی صورتحال بالکل غير واضح ہے۔

شام نے بين الاقومی پريس کے نمائندوں کو ملک ميں آنے کی اجازت نہيں دی ہے اور نہ ہی اُن ميں سے کوئی احتجاج کے مرکزی علاقوں تک جا سکتا ہے۔ شامی حکومت صحافيوں کو ويزے جاری نہيں کررہی ہے۔

ان سب باتوں کی وجہ سے قياس آرائيوں، اپنے اپنے مفادات کے مطابق خبريں پھيلانے اور پروپيگنڈے کو ہوا مل رہی ہے۔ ان سے يہ تاثر ملتا ہے کہ جيسے شام کی بے رحمانہ رياستی جبری طاقت سے ليس حکومت 20 ملين حکومت مخالف شاميوں کے مقابل کھڑی ہو۔ ليکن شام سے اچھی طرح سے واقف اور بيروت کی امريکی يونيورسٹی کے سياسيات کے پروفيسرہلال کاشان کا کہنا ہے کہ ايسا نہيں ہے:’’دراصل يہ ديہی علاقوں کی بغاوت ہے۔ بڑے شہروں کو نظام کے قائم رہنے اور استحکام برقرار رہنے سے دلچسپی ہے۔ وہ بھی بشار الاسد کو پسند نہيں کرتے اور اُن کے اقتدار کا خاتمہ بھی چاہتے ہيں ليکن اُنہيں يہ خوف ہے کہ اس کے بعد کيا ہوگا۔‘‘

شامی صدربشار الاسد يورپی يونين کی خارجہ امور کی ذمہ دار کيتھرين ايشٹن کے ساتھ
شامی صدربشار الاسد يورپی يونين کی خارجہ امور کی ذمہ دار کيتھرين ايشٹن کے ساتھتصویر: AP

در حقيقت يہ غريب اور نظر انداز کی جانے والی ديہی آبادی کی بغاوت ہے۔ دارالحکومت، متوسط طبقے اور دانشوروں نے ابھی تک اس بغاوت ميں حصہ نہيں ليا اور حکومت کو اپنی بقاء کے ليے اس بات پر اور خصوصاً اپنے پانچ لاکھ فوجيوں اورہر جگہ موجود خفيہ پوليس اور سکيورٹی کے عملے پر بھروسہ ہے۔

رپورٹ: اُلرش لائٹ بولڈ، عمان / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں