1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں جنگ بندی معاہدے کی اس بار پاسداری کی اصل وجوہات

امجد علی15 ستمبر 2016

شام میں اس سال کے شروع میں طے کردہ جنگ بندی معاہدے کی جلد ہی خلاف ورزیاں شروع ہو گئی تھیں اور یہ عملاً ختم ہو گیا تھا تاہم تازہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے حالات بڑی حد تک مختلف ہیں۔ آخر اس کی وجوہات کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/1K2xI
Syrien Waffenstillstand Eid Al Adha Kinder in Douma
شام میں جنگ بندی پر بڑی حد تک عملدرآمد کے باعث شامی بچے عید الاضحیٰ پر تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Badra

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق شام میں جنگ کو روکنے کے لیے پانچ سال کی ناکام کوششوں کے بعد بہت سے مبصرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاید اس جنگ کا، جو تباہ کن ہونے کے حوالے سے تاریخی حدوں کو چھُو رہی ہے، کوئی نتیجہ نہ نکل سکے۔

اس مایوسی کی وجوہات بڑی واضح ہیں: شامی صدر بشار الاسد دمشق میں مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی برسرِاقتدار رہنے کے لیے آخری حد تک بھی جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ اُنہیں علوی شیعوں کے ساتھ ساتھ مسیحیوں اور دیگر اقلیتی گروپوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ بہت سے حلقوں کے نزدیک بشار الاسد کا اقتدار میں رہ جانا ایسی کسی صورتحال سے بہرحال بہتر ہے کہ جس میں سلامتی کے ادارے شکست و ریخت کا شکار ہو جائیں اور ملک سنّی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ امریکا اس دلدل میں پاؤں نہیں رکھنا چاہتا۔ اوباما انتظامیہ نے چند مبینہ طور پر معتدل باغی گروپوں کو ہلکے اسلحے کے ساتھ ساتھ تربیت تو دی ہے لیکن اُس نے نہ صرف زیادہ بڑے پیمانے کی فوجی مداخلت سے انکار کر دیا ہے بلکہ شام کے شمال میں ایک نو فلائی زون کے مطالبات کی بھی حمایت نہیں کی۔

اُدھر روس نے اس دوران شام میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا، اسد کی پوزیشن کو مستحکم بنایا اور یوں ایک قائدانہ کردار ادا کرنا شروع کیا۔ شام کے منظر نامے پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب وہاں حالات کے بہتر ہونے کی امید دکھائی دیتی ہے۔

امریکا اور روس کی کوششوں سے رواں ہفتے کے آغاز پر پیر کو ایک ہفتے کی جنگ بندی شروع ہوئی تھی، جس پر ابھی تک عملدرآمد جاری ہے۔ معاہدے کی اسی پاسداری کو دیکھتے ہوئے امریکا اور روس نے جنگ بندی کی مدت میں مزید اڑتالیس گھنٹے کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔ اس جنگ بندی پر آخر تک عملدرآمد جاری رہنے کی صورت میں ایک بار پھر امن مذاکرات کا سلسلہ بحال کیا جائے گا، جو روسی وزارتِ خارجہ کے بقول آئندہ مہینے بھی شروع ہو سکتا ہے۔

Schweiz US Premierminister John Kerry und russischer Aussenminister Sergei Lavrow
معاہدے کی پاسداری کو دیکھتے ہوئے امریکا اور روس نے جنگ بندی کی مدت میں مزید اڑتالیس گھنٹے کی توسیع کا اعلان کیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Lamarque

سوشل میڈیا پر شام کی جنگ کی ہولناکیاں دیکھ دیکھ کر عالمی برادری کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے۔ حالات بہتر ہونے کی امید اس لیے بھی دکھائی دے رہی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار کئی فریق اسد کے بدستور برسرِاقتدار رہنے کو قبول کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید