1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں پہلی مرتبہ شاہی خاندان سے وزیر توانائی تعینات

8 ستمبر 2019

سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اپنے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کو ملکی وزیر برائے توانائی تعینات کر دیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سعودی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والا یہ عہدہ شاہی خاندان کے کسی فرد کو دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3PF23
Saudi-Arabien neuer Energieminister Abdulaziz Bin Salman
تصویر: picture-alliance/AP/I. Leal

شہزادہ عبدالعزیز کو سن 2016 سے وزیر توانائی کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے خالد الفالح کو برطرف کر کے اس عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔

شہزادہ عبدالعزیز کے اپنے چونتیس سالہ سوتیلے بھائی اور طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے قریبی تعلقات نہیں ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ملک کی اہم ترین وزارت سونپے جانے کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ عبدالعزیز سعودی شاہی خاندان میں واحد ایسے ش‍خص سمجھے جاتے ہیں، جنہیں توانائی کے شعبے کے بارے میں مہارت حاصل ہے۔

نئے سعودی وزیر توانائی سن 1960 میں پیدا ہوئے تھے اور اتفاق کی بات یہ بھی ہے کہ اسی برس وزارت توانائی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ انہوں نے شاہ فہد یونیورسٹی سے پیٹرولیم کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1985 میں انہیں وزارت توانائی میں بطور مشیر تعینات کیا گیا تھا اور دس برس بعد انہیں سعودی عرب کا نائب وزیر برائے توانائی بنا دیا گیا تھا۔ سن 2017 میں شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے توانائی کے امور کی وزارت کا قلمدان سنبھالا تھا۔

خالد الفالح کو کیوں ہٹایا گیا؟

وزارت توانائی سعودی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کی نصف سے زائد آمدن اسی شعبے سے حاصل ہوتی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے ملکی معیشت میں تنوع پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن اب تک کے نتائج ان کی توقع کے مطابق نہیں ہیں۔

دوسری جانب ملکی معیشت حکومتی اخراجات کے باعث بھی عدم توازن کا شکار ہے۔ ریاض حکومت کے رواں برس کے اخراجات 295 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو کہ ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی فی بیرل قیمت کم ہونے کے باعث سعودی عرب کو بجٹ میں توازن لانے میں مشکلات درپیش ہیں۔ خام تیل کی فی بیرل قیمت 60 ڈالر ہے جب کہ ماہرین کے مطابق آمدن اور اخراجات میں توازن پیدا کرنے کے لیے سعودی خام تیل کی فی بیرل قیمت 80 تا 85 ڈالر ہونا چاہیے۔

خالد الفالح کو سن 2016 میں علی بن ابراہیم النعیمی کی جگہ وزیر توانائی و معدنیات بنایا گیا تھا۔ اس وقت محمد بن سلمان نے قریب دو دہائیوں تک توانائی کی وزارت سنبھالنے والے النعیمی کو ملک میں معاشی اصلاحات لانے کے منصوبوں پر کام کرنے کی ذمہ داری دے دی تھی۔

رپورٹوں کے مطابق النعیمی خالد الفالح کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے اور وزارت توانائی کے انتظامی معاملات پر شہزاد محمد اور الفالح کے مابین بھی اختلافات شروع ہو گئے تھے۔

حالیہ مہینوں کے دوران خالد الفالح کے اختیارات میں تیزی سے کمی لائی گئی اور پہلے مرحلے میں معدنیات کو وزارت توانائی سے الگ کر دیا گیا۔ چند روز قبل شہزادہ سلمان نے سعودی آئل کمپنی 'آرامکو‘ کے بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے بھی الفالح کو ہٹا دیا تھا۔

ش ح / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)