1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی شام میں باغیوں کی بڑی کامیابی، جنگ بدستور جاری

27 مارچ 2017

شمالی شام میں امریکی حمایت یافتہ شامی باغی اور داعش کے جنگجوؤں کے مابین گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ الطبقہ کی اہم فوجی ایئر بیس کی بازیابی کے بعد شامی باغی جہادیوں کے زیر قبضہ شہر الرقہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2a0x6
Syrien-Krieg Streitkräfte des Regimes führen Luftangriffe in Hamuriye, Ost-Ghouta
تصویر: picture-alliance/abaca/S. Tatin

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے ستائیس مارچ بروز پیر بتایا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ شامی باغیوں کے اتحاد نے شمالی شام میں الرقہ کے قریب واقع ایک فوجی ہوائی اڈے سے انتہا پسند گروہ داعش کو پسپا کر دیا ہے۔ کرد اور عرب ملیشیا گروپوں پر مشتمل سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نامی اس اتحاد نے اتوار کے دن اس اہم ایئر پورٹ کو بازیاب کرایا، جس کے بعد البطقہ اور الرقہ کے علاقوں میں شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

شام میں امریکی فوجی تعینات کر دیے گئے

داعش ایک سال میں اپنے زیر قبضہ ایک چوتھائی علاقے سے محروم

الرقہ کو داعش سے چھڑانے کا آپریشن’ غضبِ فرات‘ شروع ہو گیا

آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان کے مطابق سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اور انتہا پسند گروپ داعش کے جنگجوؤں کے مابین شدید لڑائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس عسکری کارروائی میں ان باغیوں کو امریکی اتحادی فورسز کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یہ باغی گروہ شمالی شام کے کئی علاقوں میں داعش کو شکست دے چکا ہے جبکہ الطبقہ میں اسے شدت پسندوں کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی علاقے میں شام کا سب سے بڑا ڈیم بھی واقع ہے، جسے اس لڑائی کی وجہ سے تباہ ہو جانے کا خدشہ لاحق ہے۔

اتوار کے دن الطبقہ کے اہم فوجی ہوائی اڈے پر جنگجوؤں کو شکست دینے کے بعد اب شامی باغی اپنی پوزیشنین زیادہ بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں۔ رامی عبدالرحمان کے بقول، ’’اس ایئر بیس کے شمال میں لڑائی جاری ہے جبکہ ایس ڈی ایف کی کوشش ہے کہ وہ علاقے کے گرد گھیرا تنگ کر دے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس لڑائی میں امریکی عسکری اتحاد  کے جنگی طیارے بھاری بمباری کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دریائے فرات کے جنوبی کنارے پر واقع شامی شہر الطبقہ داعش کے جنگجوؤں کا اہم گڑھ ہے جبکہ جس فوجی ایئر بیس سے ان جہادیوں کو پسپا کیا گیا ہے، وہ اس شہر سے تقریباً تین کلو میٹر دور ہی واقع ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کرد اور عرب جنگجو اب الطبقہ ڈیم کی طرف پیشقدمی بھی کر رہے ہیں، جس سے خدشات ابھر رہے ہیں کہ جہادی اس اہم آبی ذخیرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ڈیم اب بھی داعش کے شدت پسندوں کے قبضے میں ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس ڈیم کو نقصان پہنچا تو الرقہ کے علاوہ دیر الزور کے کئی شہروں میں بھی سیلاب آ سکتا ہے۔ ادھر ایس ڈی ایف کے ترجمان طلال سیلیو نے بتایا ہے کہ ان کے فائٹرز الطبقہ اور اس ڈیم کے گرد اپنی پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا مقصد الرقہ کا محاصرہ کرنا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بازیاب کرائے گئے فوجی ہوائی اڈے کو دھماکا خیز مواد سے صاف کرنے کے بعد اس کی تعمیر نو شروع کر دی جائے گی۔

امکان ہے کہ امریکی عسکری اتحاد کی حمایت کے ساتھ ایس ڈی ایف نومبر کے مہینے میں الرقہ پر چڑھائی کریں گے۔ یہ شہر داعش کا نام نہاد دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے اور اگر اس مقام پر ان شدت پسندوں کو پسپا کر دیا گیا تو یہ ان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔ یہ باغی اس وقت الرقہ سے اٹھارہ تا بیس کلو میٹر دور ٹھکانے بنانے میں مصروف ہیں۔