1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی عراق: موت کی دہلیز پر مقیم سنی عرب

عابد حسین25 فروری 2016

شمالی عراق میں گزشتہ تین ماہ سے 500 کے قریب انسان ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں اور کرد فائٹرز کے درماین پھنسے ہوئے ہیں۔ خوراک کی عدم دستیابی میں یہ بے سر و سامان لوگ محصور علاقے میں اگے خُود رو پودوں پر گزر بسر کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1I1Wd
Irak Flüchtlinge 30.07.2014
تصویر: Reuters/Spencer Platt

شمالی عراق میں یہ مقام سنجار علاقے میں ہے، جہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے شدت پسند اور عراق کے خود مختار علاقے کردستان کے مسلح دستے پیش مرگہ مسلح جھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے۔ اس گروہ کے تین افراد سے نیوز ایجنسی روئٹرز نے گفتگو کی۔ ان افراد نے بتایا کہ اُن کے سامنے کرد فائٹرز راستہ روکے ہوئے ہیں اور اُن کے پیچھے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی خود ساختہ خلافت ہے۔ کرد فائٹرز کو خوف ہے کہ اِن افراد کو آگے بڑھنے کی اجازت دی تو موقع غنیمت سمجھتے ہوئے جہادی پیش قدمی کر سکتے ہیں۔

پیش مرگا کے مقامی کمانڈر فاریق جمال کا کہنا ہے کہ اِن لوگوں کا راستہ روک رکھنا، اُن کا نہیں بلکہ اعلیٰ سطحی فیصلہ ہے کیونکہ اِن پر شک کیا جا رہا ہے کہ اِن کے ہمراہ جہادی بھی کرد علاقے میں داخل ہو جائیں گے۔ اقوام متحدہ نے بھی کرد فائٹرز سے درخواست کر رکھی ہے کہ انسانی امداد اِن افراد تک پہنچانے کے لیے محفوظ راستہ مہیا کیا جائے۔ اِن سنی عربوں کو ایک ایسی پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ اِس میں پیچھے موت کھڑی ہے اور آگے راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔

یہ لوگ کرد پیش مرگہ کی اگلی پوزیشنوں سے پانچ سو میٹر کے فاصلے بوسیدہ اور پھٹے پرانے کپڑوں سے بنائے گئے خیموں میں زندگی کے روز و شب گزار رہے ہیں۔ ان کمزور خیموں کے عقب میں چھوٹی بڑی خندقیں اُن کے لیے زندگی بچانے میں اُس وقت مدد گار ہوتی ہیں جب عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسیٹ‘ کی جانب سے کردوں لشکریوں پر گولے داغے جاتے ہیں۔ روئٹرز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ابتدائی ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ان محصور افراد تک خوراک کسی نہ کسی طریقے سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے علاقے سے چوری چھپے لائی جاتی تھی اور بعد میں جہادیوں کو اِس کی خبر ہو گئی تو انہوں نے اِس راستے کی نگرانی شروع کر دی۔

Armut im Irak - Frau trägt Wasser
عراق کے باسی اپنے وطن میں غریب الوطنی کا شکار ہیںتصویر: AP

پانچ سو افراد کی خوراک کا داراومدار اب کرد علاقے میں رہنے والے سنی قبائلیوں کی مدد پر ہے۔ یہ قبائلی کرد پیش مرگا سے اجازت لے کر اُن تک تھوڑا بہت ضروری سامان پہچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیش مرگا بھی کبھی کبھار ان کو روٹی دے دیتے ہیں۔

بے سر و سامان افراد کے اِس گروہ میں شامل اڑتالیس برس کے سابقہ کسان محمود کا کہنا ہے کہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارٹر گولے جسم کو ستاتی بھوک سے بہتر ہیں۔ محمود کے مطابق گولوں کو داغے جانے کے وقت خندقیں پناہ کے لیے موجود ہیں لیکن بھوک کے لیے کس جگہ پناہ حاصل کریں۔ موسم کی شدت اور کم خوراکی کی وجہ سے اب اِس گروپ میں ہلاکتوں کا سلسلہ بھی شروع ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید