1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان پر ڈرون حملے ، 15 افراد ہلاک

28 دسمبر 2010

پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں منگل کے روز تازہ امریکی ڈرون حملوں میں کم از کم 15 مبینہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران شمالی وزیرستان میں تین ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Qkco

شمالی وزیرستان میں مقامی اہلکاروں نے بتایا کہ پہلے حملے میں بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے ایک مبینہ امریکی ہوائی جہاز سے چار میزائل فائر کئے گئے۔ ان کا نشانہ ’غلام خان‘ نامی ایک گاؤں میں شدت پسندوں کے دو مبینہ ٹھکانے تھے۔ یہ گاؤں میران شاہ سے بیس کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ حکام نے بتایا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے پانچ مبینہ دہشت گردوں کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی جبکہ دوسری کارروائی نواب نامی گاؤں پر کی گئی، جہاں تین گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں کم از کم دس مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔

Obama Afghanistan USA Pakistan
امریکی انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کسی بھی ڈرون حملے کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئیتصویر: AP

حکام کا مزید کہنا تھا کہ اس علاقے میں طالبان کے حقانی گروپ کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔حقانی گروپ کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے بھی تعلقات ہیں اور یہ افغانستان میں غیر ملکی فوجی دستوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی مصروف رہتا ہے۔ حقانی گروپ افغان جنگجو سردار جلال الدین حقانی نے بنایا تھا اور اب ان کے بیٹا سراج الدین حقانی اس کا سربراہ ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی جنگجوحافظ گل بہادر اور مولوی صادق نور پاکستان میں اس گروپ کے اہم حلیف ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کا علاقہ حقانی گروپ اپنی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور تیاری کے لئے استعمال کرتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے ابھی تک کسی بھی ڈرون حملے کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی تاہم افغانستان میں تعینات امریکی فوج اور خفیہ ایجنسی سی آئی اے علاقے میں موجود وہ واحد فورسز ہیں، جن کے پاس بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے ڈرون طیارے موجود ہیں۔

پاکستانی سر زمین پر ڈرون حملوں میں اس سال کے دوران بہت زیادہ تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2010 کے دوران اب تک پاکستانی قبائلی علاقوں میں تقریباً سو ڈرون حملے ہوچکے ہیں، جن میں640 سے زائد افراد مارے گئے۔ 2004ء میں شروع ہونے والے ڈرون حملوں کے سلسلے میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی گئی۔ سن2007 میں ان کی تعداد چار تھی۔ 2008ء سے ان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور پاکستانی سرزمین پر34 مرتبہ ڈرون حملے ہوئے جبکہ 2009ء میں یہ تعداد 45 رہی تھی، جو420 افراد کی ہلاکت کا باعث بنی تھی۔

UAV Unbemannte Aufklärungsdrohne der US Armee
افغانستان میں تعینات امریکی فوج اور سی آئی اے علاقے کی وہ واحد فورسز ہیں، جن کے پاس ہی ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہیں۔تصویر: AP

القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف امریکہ کی ڈرون حملوں کی یہ مہم مبینہ طورپر پاکستان کے تعاون سے چلائی جا رہی ہے۔ پاکستانی قیادت دبے الفاظ میں کبھی کبھی ان پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کر دیتی ہے۔ رواں سال کے دوران زیادہ تر ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں کئے گئے۔ گزشتہ روز میر علی کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے 18 افراد کی شناخت کے بارے میں بھی ابھی تک حتمی طور پر کچھ نہیں بتایا گیا جبکہ یہ بات بھی تاحال غیر واضح ہے کہ آج کے حملوں میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد کون تھے۔ پاکستانی قبائلی علاقہ جات سے ایسی یقینی معلومات کا حصول تقریباً نا ممکن ہے۔ اس حوالے سے آزاد ذرائع کے بجائے فوج کی جانب سے دی جانے والی خبروں پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے اور عسکری ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کی غیر جانبدار ذرائع سے کوئی تصدیق نہیں ہو پاتی۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں