1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمعون پیریز: ایک رہنما، جو اپنے تصور کو عملی شکل نہ دے سکا

علی کیفی
28 ستمبر 2016

آں جہانی اسرائیلی سیاستدان شمعون پیریز 1993ء کے اُس امن سمجھوتے کی بنیادوں پر ایک نئے مشرقِ وُسطیٰ سے متعلق اپنے تصورات کو عملی شکل نہ دے سکے، جس کے خد و خال خود اُنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر وضع کیے تھے۔

https://p.dw.com/p/2QgNu
USA Schimon Peres in Washington
تصویر: Reuters/B. McDermid

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں پیریز کو ایک ایسا بزرگ اسرائیلی رہنما قرار دیا ہے، جسے اس بناء پر عالمی سطح پر بے حد سراہا گیا اور نوبل انعام سے بھی نوازا گیا کہ وہ شدید مذہبی اور سیاسی تقسیم کے شکار خطّے میں امید کی ایک کرن تھے۔

دو ہفتے قبل فالج کے ایک حملے کے بعد ہسپتال میں داخل کروائے گئے پیریز کی حالت پہلے کسی قدر سنبھل گئی تھی لیکن منگل کو اچانک خراب ہو گئی۔ اُن کے انتقال کی خبر جاری کرتے ہوئے اُن کے اہلِ خانہ نے کہا کہ اُنہیں تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ کہ جاتے جاتے وہ اپنی آنکھوں کے قرنیے عطیہ کر گئے۔

رواں ماہ کے اوائل میں پیریز نے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اپنے فیس بُک پیج پر پہلی کلاس کے طلبہ کے نام یہ پیغام پوسٹ کیا: ’’بہادر اور متجسس ہونا اور بڑے خواب دیکھنا نہ بھولنا۔‘‘ اس پیغام میں ایک طرح سے اُن کی پوری زندگی سمٹ آئی ہے۔

اپنے سات عشروں پر پھیلے ہوئے کیریئر کے دوران پیریز نے، جو ایک دور میں ایک زرعی فارم پر چرواہے کا کام کیا کرتے تھے، ایک درجن  مرتبہ اسرائیلی کابیناؤں میں خدمات انجام دیں، دو مرتبہ لیبر پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم بھی رہے لیکن 1977ء  سے لے کر 1996ء تک پانچ مرتبہ کوشش کرنے کے باوجود وہ کسی ایک بھی الیکشن میں واضح کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

وہ 2007ء تا 2014ء اسرائیل کے صدر بھی رہے۔ اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا: ’’میں ہارنے والا شخص ہوں۔ میں نے انتخابات ہارے ہیں۔ لیکن میں ایک فاتح ہوں کیونکہ میں نے اپنے لوگوں کی خدمت کی ہے۔‘‘

Norwegen Oslo Friedensnobelpreis für Arafat, Peres und Rabin
شمعون پیریز 13 دسمبر 1994ء کو فلسطینی صدر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کے ہمراہ امن کا نوبل نعام وصول کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/Photoshot

فلسطینیوں کی طرف سے خود کُش حملوں میں درجنوں اسرائیلیوں کی ہلاکت اور لیکوڈ بلاک کی جانب سے ایک جارحانہ مہم نے پیریز کی مقبولیت کو شدید طور پر متاثر کیا اور وہ 1996ء کے انتخابات میں بینجمن نیتن یاہو سے تیس ہزار سے کم ووٹوں سے ہار گئے۔

سن دو ہزار میں اسرائیلی فلسطینی امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد بائیں بازو کے اسرائیلی حلقے مزید کمزور ہوتے چلے گئے اور پیریز کے بھی قیادت سنبھالنے کے امکانات کم ہو گئے۔

پیریز نے 1923ء میں اُس علاقے میں جنم لیا تھا، جو اب بیلا روس کہلاتا ہے۔ دَس سال کی عمر میں انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ نقل مکانی کی اور برطانیہ کے زیر انتظام فلسطین منتقل ہو گئے، جہاں اُنہوں نے اسرائیل کے بانی لیڈر ڈیوڈ بن گوریان کے ساتھ مل کر اسرائیل کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔