1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شورش زدہ علاقوں سے سکھوں کی نقل مکانی

تنویر شہزاد، لاہور4 مئی 2009

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے شورش زدہ مقامات سے نقل مکانی کرنے والے سکھوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/HjiW
نقل مکانی کرنے والے سکھوں کو یہ خیال دامن گیر ہے کہ گھر چھوڑنا، دنیا چھوڑدینے سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہےتصویر: AP

نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر سکھ پنجاب کے مختلف علاقوں میں پہنچ رہے ہیں ۔ سوات، بونیر اور اس کے ملحقہ علاقوں سے آنے والے زیادہ تر سکھوں کو پنجاب کے شہر حسن ابدال میں واقع گوردوارہ پنجہ صاحب میں ٹھہرایا گیا ہے۔ وہاں پر موجود سکھوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اورکزی ایجنسی نامی قبائلی علاقے میں سکھوں کو طالبان کی طرف سے علاقہ چھوڑ دینے یا جزیہ دینے کا حکم ملا تھا۔ اس علاقے میں برس ہا برس سے مقیم سکھ اب نقل مکانی کر کے آج کل پشاور کے ایک گوردارے میں مقیم ہیں۔

Minderheiten in Indien
بھارت سے سکھ یاتری ہر برس سکھوں کے مقدّس شہر ننکانہ صاحب آتے ہیںتصویر: AP



نقل مکانی کر کے پنجاب آئے ہوئے سکھوں کے دس خاندان سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے آبائی شہر ننکانہ صاحب بھی پہنچے ہیں۔ جہاں وہ کرائے کے مکانوں میں ٹہرے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض سکھ خاندان دوسرے شہروں میں مقیم اپنے عزیزوں کے پاس بھی منتقل ہو رہے ہیں۔

سرحد حکومت اور طالبان میں ہونے والے امن معاہدے کی منسوخی کے نتیجے میں سوات اور بونیر میں جاری فوجی آپریشن کے بعداس علاقے سے سکھوں کی نقل مکانی میں تیزی آ گئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اقلیتی امور کے محکمے، متروکہ وقف املاک بورڈ اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی طرف سے نقل مکانی کر کے آنے والے سکھوں کو رہائش، علاج اور خوراک کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔

Indischer Primierminister mit seiner Frau
بھارتی حکومت نے سوات سے سکھوں کی نقل مکانی کی مذمت کی ہےتصویر: AP



سکھوں کی دیکھ بھال میں مصروف ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم بابا گورو نانک ویلفئیر سوسائٹی پاکستان کے چیئرمین سردار بشن سنگھ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سکھ تنظیمیں حکومت پاکستان کے تعاون سے نقل مکانی کر کے آنے والے سکھوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کے بقول اس مقصد کے لئے حکومت پاکستان اپنے خزانے سے وسائل فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ برطانیہ اور کنیڈا میں مقیم سکھوں نے متاثرہ سکھ خاندانوں کے لئے امداد کی پیش کش بھی کی ہے لیکن ابھی فی الحال اس سلسلے میں کسی امدادی فنڈ کے قیام کی ضرورت نہیں محسوس کی جاری ہے۔

متروکہ وقف املاک بورڈ کے ایڈیشنل سیکرٹری خرم صدیق نے بتایا کہ مقامی حکومت کے متعلقہ ادارے نقل مکانی کر کے آنے والے سکھوں کی بہتری کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ پاکستان کو درپیش مسائل کی وجہ سے مسلمان شہریوں کے ساتھ ساتھ سکھ بھائیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تا ہم حکومت پاکستان ان حالات میں ان کی مشکلات کے خاتمے کےلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

مالا کنڈ ڈویثرن سے نقل مکانی کرنے والے ڈاکٹر سردار سورن سنگھ آج کل گوردوارہ پنجہ صاحب میں مقیم ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی مناسب دیکھ بھال ہو رہی ہے، کھانا پینا، چائے سب کچھ مل رہا ہے لیکن نقل مکانی کرنے والے سکھوں کو یہ خیال دامن گیر ہے کہ گھر چھوڑنا، دنیا چھوڑدینے سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔

انہوں نے سرد آہ بھر کر کہا کہ جو آدمی اپنا ہستا بستا گھر اور چلتا ہوا کاروبار چھوڑ کر گوردوارا پنجہ صاحب میں پناہ لیئے ہوئے ہے اسے اگرچہ حکومت پاکستان کی طرف سے تمام ضروری سہولتیں میسر ہیں لیکن پھر بھی اگر اس پردیسی کا بچہ اس سے ٹافی کیلئے پیسے مانگتا ہے تو خالی جیب کے ساتھ اس کا احساس بے بسی مزید بڑھ جاتا ہے اور اس کا دل روتا ہے کہ وہ کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے۔

انہوں نے اس موقع پر یہ شعر بھی سنایا:

جس چمن کی بلبل نہ ہو اس چمن کی دید کیا
ہم مسافر ِ وطن ہیں آج ہماری عید کیا

اس وقت پاکستان بھر کے گوردواروں میں ملک کے حالات کے بہتری کیلئے خصوصی عبادات کی جاری ہیں اور متاثرہ سکھ اپنے گھروں کو واپس جانے کی امید کے ساتھ خصوصی دعائیں کر رہے ہیں۔