1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

US/160608

3 جولائی 2008

1921ء سے قائم بین الاقوامی تنظیم پَین سچ کہنے کی پاداش میں مصائب جھیلنے والے ادیبوں اور صحافیوں کو سہارا فراہم کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/EV8R
تصویر: AP

دُنیا بھر میں آزادیء اظہار کے دعوے تو بہت ہوتے ہیں لیکن آزادی سے کہی یا لکھی گئی سچائی کم از کم مقتدر طبقوں کو تو بالکل پسند نہیں آتی۔ تب وہ سچ کہنے والوں کو تعاقب کا نشانہ بناتے ہیں۔ سچ لکھنے والے ایسے ہی حوصلہ مند انسانوں کو پَین تنظیم کی جانب سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔

PEN مخفف ہے، انگریزی زبان کے الفاظ پوئٹس، اَیسے اِسٹس اور ناولسٹس کا۔ شاعروں، مضمون نگاروں اور ناول نگاروں کی اِس تنظیم کی ابتدا انگلینڈ میں ہوئی، سن 1921ء میں۔ تب یہ محض چند دوست ادیبوں کی چھوٹی سی انجمن تھی، جو گذرے آٹھ نو عشروں میں ایک بڑی بین الاقوامی تنظیم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

آج کی مرکزی پَین تنظیم میں دُنیا بھر کی 140 تنظیمیں شامل ہیں، جن میں سے ایک پَین جرمنی بھی ہے، جس میں665 ادیبوں نے رکنیت اختیار کر رکھی ہے۔

Der deutsche Schriftsteller Heinrich Mann
جرمن ادیب ہائنرش مان اُن ادیبوں میں شامل ہیں، جنہیں 1933ء میں جرمنی میں نازی سوشلسٹوں کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جرمنی کو خیر باد کہنا پڑا۔ 1950ء میں اُن کا انتقال بھی امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سانتا مونیکا میں ہوا۔تصویر: dpa

سیاست کے ساتھ اُلجھنا پَین تنظیم کا ابتدا ہی سے وَطِیرہ رہا ہے۔ پہلے تو یہ تنظیم اُس خلیج کو پاٹنے کی کوشش میں رہی، جو پہلی عالمی جنگ نے مختلف قوموں اور ممالک کے درمیان پیدا کر دی تھی۔ پھر جلد ہی اِس تنظیم کے حصے میں اُن ادیبوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری آئی، جنہیں جرمن نازی سوشلسٹوں کی جانب سے تعاقب کا سامنا تھا۔

ساٹھ کے عشرے سے پَین تنظیم کی سرگرمیوں میں تعاقب کے شکار تخلیق کاروں کی امداد مرکزی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ 1999ء میں رائٹرز اِن اَیگزِٹ کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت ہر سال تعاقب کے شکار چھ ادیبوں اور ادیباؤں کو ویزے، رہائش، وظیفے اور دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ پَین جرمنی کے نائب صدر Siegfried Gauch بتاتے ہیں:

”گنجائش ہو تو ہم اور بھی زیادہ تعداد میں ایسے تخلیق کاروں کو جرمنی بُلا سکتے ہیں، جنہیں تعاقب اور جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب تک کوئی ہم کوئی ایک ہزار ادیبوں کو مدد فراہم کر چکے ہیں۔ ہم ایک ایسے ایرانی ادیب کو بھی جرمنی لائے، جسے تہران میں قید کے دوران محض خوفزدہ کرنے کی غرَض سے دو بار پھانسی گھاٹ لے جایا گیا، یہ کہہ کر کہ اُسے موت کی سزا دی جا رہی ہے۔ اُس کی حالت معمول پر آنے میں کئی سال لگے ہیں۔“

Katholische Pfarrkirche St. Joseph
جرمن شہر شپائر کا ایک منظر، جہاں اس سال پَین جرمنی کی سالانہ کانگریس کا اہتمام کیا گیا۔

16جون 2008ءکوجرمنی کے قدیم اور تاریخی شہر Speyer میں پَین جرمنی کی سالانہ کانگریس کے موقع پر ایران، رُوس اور چیچنیہ سے آئی ہوئی ادیباؤں نے اپنے اپنے خِطّے کے حالات بیان کئے۔ اِنہی میں خاتون صحافی مائن گارڈ کُربانووا بھی تھیں، جنہیں مقتول خاتون صحافی آنا پولِٹ کووسکایا کی ساتھی کے طور پر تین سال پہلے گروژنی سے فرار ہونا پڑا تھا کیونکہ اُنہیں اور اُن کے اہلِ خانہ کو موت کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں:

”پَین تنظیم کے اِسی پروگرام کی وجہ سے ہی مَیں زندہ بچی ہوں۔ تب مجھے بہت جلدی میں چیچنیہ چھوڑنا تھا۔ پَین کی جرمن شاخ اور صحافیوں کیلئے سرگرم تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کام کیا۔ خاص طور پر میرے لئے یہ بہت بڑی مدد تھی۔ بہت زیادہ لکھنے والے یا تو مارے گئے یا پھر فرار ہو گئے۔آج کے چیچنیہ میں آزادی کے ساتھ رپورٹنگ کرنا، لکھنا یا سرے سے ہی آزادی کے ساتھ سوچنا بھی ممکن نہیں ہے۔“

Buchmesse in Edinburgh - Anna Politkowskaja
اپنی بے باک رپورٹنگ کے لئے مشہور روسی صحافی آنا پولٹ کووسکایا، جنہیں اکتوبر 2006ء میں ماسکو میں قتل کر دیا گیا تھا۔تصویر: picture-alliance / dpa

سن 2007ء میں سرکاری طور پر کم از کم اٹھارہ جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پچاس ادیب قتل ہوئے۔ گذشتہ برس تقریباً آٹھ سو ادیب محض اِس لئے لاپتہ، گرفتار یا اغوا ہوئے، حملوں، جبر و تشدد اور دھمکیوں کا نشانہ بنے کیونکہ اُنہوں نے چند ایسے جملے لکھ دئے تھے، جو جرائم پیشہ گروہوں کے سربراہوں سے لے کر سربراہانِ مملکت تک کو پسند نہیں آئے تھے۔

سن 2002ء سے پَین کی ایک شاخ پاکستان میں بھی قائم ہے، جس کی قیادت سیدہ حنا بابر علی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ڈوئچے ویلےکے ساتھ گفتگو میں اُنہوں نے بتایا کہ اب تک محض کچھ نوجوان ادیبوں نے ہی اِس کی رکنیت اختیار کی ہے، جبکہ کوئی بڑا ادیب اِس کا رکن نہیں بنا ہے۔ حنا بابر علی کے مطابق نہ صرف یہ ادیب اِس تنظیم کی سالانہ رُکنیت فیس ادا کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ اس کے منشور پر دستخط بھی نہیں کرنا چاہتے اور اِس تنظیم کے قیام کے اصل مقصد کو نظر انداز کرتے ہوئے اُلٹا یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم اُن کی ادبی تخلیقات کی اشاعت میں کہاں تک مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔