1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجر، افسردہ بھی پرامید بھی

عاطف بلوچ، روئٹرز
21 جنوری 2017

ایک برس قبل ہنگری کی ایک صحافی کی جانب سے ٹانگ اڑا کر گرانے کے واقعے سے شہ شرخیوں کا حصہ بننے والا شامی مہاجر اسپین میں اپنے باقی ماندہ خاندان کا منتظر ہے۔ اس مہاجر کی بیوی اور بیٹی اب بھی ترکی میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2WArT
Ungarn Journalistin tritt fliehenden Migranten bei Roszke
تصویر: Reuters/M. Djurica

گزشتہ برس ہنگری کی سرحد کے قریب ایک خاتون صحافی نے دوڑ کر سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے مہاجر اسامہ العابد المحسن کو ٹانگ اڑا کر گرا دیا تھا۔ اس مہاجر کی بیوی اور ایک بیٹی ابھی تک ترکی میں پھنسے ہوئے ہیں اور المحسن کو امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے خان دان کو دوبارہ دیکھ سکے گا۔

شام میں پہلے درجے کے فٹ بال کوچ کے طور کام کرنے والے المحسن کو اسپین میں ایک فٹ بال اسکول میں کوچنگ کی نوکری ملی ضرور لیکن ہسپانوی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر یہ نوکری ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ المحسن اب اسپین چھوڑ نے پر غور کر رہے ہیں۔

ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ ایک سرحد عبور کرنے والے مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔

Spanien Syrien Flüchtling Osama Abdul Mohsen in Barcelona
المحسن کے مطابق وہ صحافی کے بارے میں نہیں اپنے خاندان کے بارے میں سوچ رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Soriano

گزشتہ ہفتے ہنگری کی ایک عدالت نے ’نامناسب رویے‘ کے جرم میں لازسلو کو تین برس کی معطل سزا بھی سنا دی تھی۔ اس خاتون صحافی کا موقف تھا کہ اس نے یہ اقدام اپنے تحفظ میں اٹھایا، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

المحسن نے اس معاملے اور صحافی سے متعلق بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ یہ معاملہ ’بھول‘ چکے ہیں۔

میڈرڈ کے نواح میں دو کمرے کے ایک فلیٹ میں رہنے والے المحسن نے کہا، ’’میں اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں اس صحافی کے بارے میں سوچوں۔‘‘

اس 52 سالہ شامی مہاجر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان سے دوری پر اداس ہیں، مگر انہیں امید ہے کہ وہ جلد اپنی بیوی اور بیٹی سے ملے گے۔