1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحیح سمت کی طرف پہلا قدم

گراہم لوکاس/ کشور مصطفیٰ6 اکتوبر 2015

جرمن چانسلر کے بھارت کے دورے کے دوران جرمنی اور بھارت کے مابین متعدد معاہدے طے پائے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق تجارت سے ہے۔ اس پس منظر میں دو طرفہ تعلقات کے جائزے کے ساتھ ڈوئچے ویلے کے گراہم لوکاس کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1GjZI
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Rahi

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے تین روزہ دورہ بھارت کے دوران 18 معاہدے طے پائے ہیں جن کا تعلق تربیت اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں جرمن سرمایہ کاروں اور کارپوریشنز کے باہمی تعاون میں بہتری سے ہے۔ ڈوئچے ویلے کے گراہم لوکاس اس بارے میں اپنے تبصرہ یوں رقم کرتے ہیں:

اپریل 2015 ء میں جرمن شہر ہنوور میں منعقد ہونے والے ’جرمنی کے شوُ پیس ٹریڈ فیئر‘ میں جرمن تاجرین کا موُڈ سنجیدہ تھا۔ تب نریندر مودی کی طرف سے جرمن سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی زور دار کال پر جوابات سے زیادہ سوالات اُٹھ رہے تھے۔ جرمن کاروباری حلقے بھارت کی سست رو بیوروکریسی، اونچی سطح کی کرپشن کے علاوہ ٹیکس اور فکری املاک کے تحفظ کے ناقص نظام اور بھارتی افراد قوت میں مہارت کی سخت کمی کا حوالہ دے رہے تھے۔

Indien Bundeskanzlerin Angela Merkel und Premierminister Narendra Modi in Neu-Delhi
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا دورہ بھارتتصویر: picture-alliance/AA/S. Singh

مزید برآں جرمن کمپنیوں کے لیے بھارت میں سرمایہ کاری کا ثمر حاصل کرنے تک کا عرصہ یا وقت بہت زیادہ تھا۔ خاص طور سے جرمنی کے اقتصادی پاور ہاؤس کی حیثیت رکھنے والی درمیانی سائز کی کمپنیوں کے لیے۔ بھارت میں اس وقت 1700 کمپنیاں فعال ہیں اور ان میں سے اکثریت متوسط سائز کی کمپنیوں کی ہے۔ Siemens,SAP یا ڈائملر یا مر سیڈیز جیسی بین الاقوامی کمپنیوں کو تو بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کا بدلا ملنے میں دس سال تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ اتنا طویل انتظار نہیں کر سکتیں۔ بھارت اور جرمنی کے سیاسی تعلقات میں بھی کچھ پیچ و خم پائے جاتے تھے۔ ہندو قوم پرست مودی نے چند بھارتی اسکولوں میں جرمن زبان کی تدریس کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ میرکل اس پر خفا تھیں۔

Lucas Grahame Kommentarbild App
ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار گراہم لوکاس

اس پس منظر میں چانسلر میرکل کا بھارت کا دورہ خاصہ اہم تھا۔ بحیثیت دنیا کے چوٹی کے برآمدی ملکوں میں سے ایک جرمنی، بھارت کے ساتھ باہمی تجارتی تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے، اس میں بارے میں کوئی شکوک و شبہات نہیں پائے جاتے تاہم 2012 ء سے دو طرفہ تجارت کا حجم 16 بلین پر آ کر جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جرمن تاجرین کی اُن شکایات سے پیدا ہونے والے مسائل سے کیسے نمٹا جائے جو سرمایہ کاری کے حق میں نہیں ہیں۔ مودی نے مئی 2014 ء کے انتخابات میں اپنے ملک کو جدید خطوں پر استوار کرنے کا حوصلہ مند منصوبہ پیش کیا تھا۔ اب تک اس پر عملدرآمد کا بہت کم ہی مظاہرہ ہو سکا ہے کیونکہ انہیں اپنی پارلیمان میں اپنی جدید پالیسیوں کے خلاف تلخ مخالفت کا سامنا ہے تاہم بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مودی پر بہت زیادہ دباؤ ہے اور اس دباؤ کے تحت اُن کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ بھارت کی 1.3بلین کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ایک محفوظ مستقبل اور روزگار کے طالب ہیں۔